پاکستان

خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون ڈی پی او سے ملیے

سونیا شمروز اپنے خاندان کی پہلی فرد ہے، جنہوں نے نہ صرف سرکاری ملازمت حاصل کی بلکہ انہوں نے اعلیٰ عہدہ بھی حاصل کیا۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پر خواتین کو اہم اور بڑے سرکاری عہدوں پر خدمات سر انجام دینے کے مواقع کم دستیاب ہوتے ہیں۔

دیگر محکموں میں اگرچہ گزشتہ چند سالوں میں خواتین ملازمین کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے تاہم پولیس کے شعبے میں تاحال خواتین افسران کی تعداد میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔

ملک بھر میں 2017 تک پولیس میں صرف 2 فیصد خواتین شامل تھیں اور گزشتہ تین سال میں اس تعداد میں معمولی سا اضافہ ہوا ہے۔

جہاں پولیس میں خواتین کی تعداد کم ہے، وہیں پولیس میں خواتین افسران کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے تاہم اب اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی تعیناتی ہونے لگی ہے، جس سے نوجوان لڑکیوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔

ایسی ہی خواتین افسران میں خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کی پہلی ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سونیا شمروز بھی ہیں، جنہیں اعلیٰ عہدے پر تعینات ہوئے کچھ ماہ ہی ہوئے ہیں۔

ڈان امیجز نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر سونیا شمروز سے بات کی اور پولیس کے اعلیٰ عہدے تک پہنچنے کے سفر میں پیش آنے والی مشکلات سے متعلق ان سے معلوم کیا۔

سونیا شمروز کا تعلق خیبرپختونخوا کے ایک ایسے خاندان سے ہے، جس کے کسی فرد کو ان سے پہلے کوئی سرکاری نوکری نہیں ملی تھی، ایسے میں کسی خاتون کی ملازمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تاہم سونیا شمروز خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی تاریخ اور روایت بدلنے والا کردار بنیں۔

سونیا شمروز بتاتی ہیں کہ وہ جب ایبٹ آباد کے آرمی برن ہال کالج میں زیر تعلیم تھیں تب انہیں یونیفارم پہننے کا خیال آیا تھا، جس وجہ سے انہوں نے مستقبل میں اعلیٰ مسابقتی کمیشن (سی ایس ایس) کا امتحان پاس کرکے پولیس میں ملازمت حاصل کی۔

سونیا شمروز کو ابتدائی طور پر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا تاہم وقت گزرنے کے بعد ان کی ترقی بھی ہوئے اور انہوں نے ایک خاتون ہونے کے ناطے اے ایس پی کے عہدے پر رہتے ہوئے فرض شناسی بھی سیکھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ابتدائی طور پر ان کے پولیس افسر بننے سے جہاں دوسرے لوگ بھی حیران تھے، وہیں پولیس کے مرد اہلکار بھی پریشان تھے کہ وہ ایک خاتون کے ساتھ کیسے کام کریں گے تاہم وقت گزرنے اور ان کی جانب سے سخت محنت کرنے کے بعد مرد اہلکاروں کو احساس ہوگیا کہ وہ ان کے ساتھ بلا ججھک کام کر سکتے ہیں۔

سونیا شمروز نے ایبٹ آباد سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی خدمات سر انجام دیں اور بعد ازاں انہیں برطانیہ کی یارک یونیورسٹی میں خواتین پر تشدد کی اعلیٰ تعلیم کے لیے منتخب کیا گیا۔

سونیا شمروز کا شمار پاکستان کی ان چند خواتین پولیس افسران میں بھی ہوتا ہے، جنہیں اقوام متحدہ (یو این) کے ذیلی ادارے (یو این ڈی پی) کے ’امن و انصاف‘ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا اور انہیں تربیت فراہم کی گئی۔

بعد ازاں سونیا شمروز کو رواں برس کے آغاز میں چترال میں ڈی پی او کی ذمہ داریاں دی گئیں اور انہوں نے وہاں پر ’امن و انصاف‘ پروگرام کے تحت اقوام متحدہ اور یورپین یونین (ای یو) کی مدد سے جینڈر ریسپانس ڈیسک (جی آر ڈی) کے قیام سمیت ماڈل پولیس اسٹیشن کا قیام بھی کیا۔

انہوں نے لوئر چترال میں خواتین اہلکاروں کے عملے پر مشتمل خصوصی ماڈل پولیس اسٹیشن قائم کیا ہے، جس کا مقصد علاقے کی خواتین کو بروقت اور بہتر رہنمائی و مدد فراہم کرنا ہے۔

سونیا شمروز بتاتی ہیں کہ انہیں چترال میں سب سے زیادہ دو بڑے مسائل کا سامنا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ ان مسائل پر جلد سے جلد قابو پایا جائے۔

انہوں نے چترال کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے میں نوجوان لڑکیوں کی جانب سے خودکشی کی شرح پورے ملک سے زیادہ ہے اور مذکورہ مسئلہ علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

ان کے مطابق گھریلو تشدد، بے جوڑ شادیوں اور مرضی کے خلاف رشتے کروانے سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے چترال کی نوجوان لڑکیوں میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔

انہوں نے علاقے کا دوسرا مسئلہ بتاتے ہوئے کہا کہ چترال کا دوسرا مسئلہ وہاں کی نوجوان لڑکیوں کی دور دراز کے اضلاع یا دوسرے صوبے کے افراد سے شادیاں کروانا ہے۔

سونیا شمروز کے مطابق چترال کی نوجوان لڑکیوں کے والدین پیسوں کے عوض اپنی بیٹیوں کی شادیاں دور دراز اضلاع کے افراد سمیت دوسرے صوبے کے عمر رسیدہ یا زائد العمر افراد سے کرواتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کی لڑکیاں اپنی زندگی کا خاتمہ کرتی ہیں۔

ڈی پی او چترال بتاتی ہیں کہ ان کی جانب سے ایک ماہ قبل ہی ماڈل پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا تھا تاہم ایک مہینے کے اندر ہی ان کے تھانے نے 100 کے قریب کیس حل کیے ہیں اور ماڈل تھانے کی خواتین اہلکار تیزی سے علاقے کی نوجوان لڑکیوں کی مدد کر رہی ہیں۔

ماڈل پولیس اسٹیشن کے قیام کا مقصد خودکشی پر مجبور ہونے والی لڑکیوں کو قانونی مدد فراہم کرنا ہے اور اس ضمن میں ماڈل تھانے کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔


یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

عالمی یوم خواتین پر گوگل کا ڈوڈل

سال 2020: ملک بھر میں خواتین پر تشدد کے 2300 کیسز رپورٹ

علی گل پیر کو ’تیرا جسم، میری مرضی‘ گانے پر تنقید کا سامنا