دنیا

میانمار میں آمریت کے خلاف مظاہرے، دھرنے کے خاتمے کیلئے پولیس کا تشدد

منڈالیا میں ہزاروں افراد پر مشتمل دھرنے کو ختم کروانے کے لیے میانمار پولیس نے آنسو گیس فائر کیے۔

میانمار میں پولیس نے فوجی بغاوت کے خلاف جاری دھرنے کو ختم کرنے کے لیے سیکڑوں مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ کئی شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرین پر کریک ڈاؤن کیا۔

مزید پڑھیں: میانمار: فوجی حکومت نے مظاہروں، احتجاج کے انعقاد پر خبردار کردیا

اتوار کے روز منڈالیا میں ہزاروں افراد پر مشتمل دھرنے کو ختم کروانے کے لیے میانمار پولیس نے آنسو گیس فائر کیے۔

ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کے مرکزی شہر ینگون اور شمالی شان کے علاقے میں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور اسٹن گرینیڈ فائر کیے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ تاریخی مندر کے قصبے بگن میں پولیس نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کو توڑنے کے لیے فائرنگ کی اور متعدد رہائشیوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی پوسٹ میں کہا کہ لائیو گولیاں فائر کی گئی تھیں۔

تاہم کسی جانی نقصان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف دوسرے روز بھی مظاہرے جاری

میانمار نامی ایک میڈیا گروپ کی ویڈیو میں مظاہرین پر فوجی اہلکار کا تشدد دکھا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یکم فروری کو فوج کی حکومت کا تختہ پلٹنے اور منتخب رہنما آنگ سان سوچی کو حراست میں لینے کے بعد سے سیکیورٹی فورسز نے جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں روزانہ مظاہروں اور ہڑتالوں کے سلسلے میں 50 سے زائد افراد کو ہلاک کردیا۔

ایک احتجاجی رہنما نے ملک کے جنوب میں واقع قصبے داؤئی میں مظاہرین سے کہا کہ یہ لوگ پرندوں اور مرغیوں کی طرح لوگوں کو مار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں تو کیا کریں؟ ہمیں بغاوت کرنی ہوگی۔

دارالحکومت اور تجارتی حب ینگون میں بڑے پیمانے پر احتجاج سے نظام زندگی درہم برہم اور ٹریفک کی روانی معطل ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: انٹرنیٹ سروس معطل، ہزاروں افراد کا فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ

مختلف شہروں میں مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جس پر فوجی بغاوت کے خلاف نعرے درج تھے اور وہ اپنی لیڈر کی رہائی اور حکومت کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے۔

ملک بھر میں فوجی بغاوت کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور مظاہروں پر سرکاری ٹی وی نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا عندیہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ فوجی حکمرانی کی مخالفت غیر قانونی ہے۔

خیال رہے کہ میانمار کے فوجی جرنیلوں نے رواں برس یکم فروری کو حکومت کا تختہ اُلٹتے ہوئے 75 سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔

میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔

فوجی حکومت میں زیادہ عرصہ تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

میانمار کے ایک انجینیئر کاوے زن تن نے ینگون میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہی خود محسوس کررہے ہیں جس کے سائے تلکے ہم 1990 کی دہائی میں پلے بڑھے تھے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوری حکومت میں یہ خوف ختم ہو گیا تھا لیکن اب اسی خوف نے دوبارہ جگہ لے لی ہے لہٰذا ہمیں اپنے مستقبل کے لیے اس فوجی حکومت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

امریکی نمائندہ خصوصی، طالبان رہنماؤں کا دوحہ معاہدے سے وابستگی کا اظہار

پوپ فرانسس کا عراقی مسلمانوں، مسیحیوں پر امن کیلئے متحد ہونے پر زور

کشمیر کی صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، امریکا