سپریم کورٹ کا مسلسل عدالتی اختیار سے تجاوز کے خلاف انتباہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کسی بادشاہ کے برعکس جو اپنی مرضی کا کوئی بھی حکم جاری کرسکتا ہے ایک آئینی جج ایسی ہدایات جاری نہیں کرسکتا جس کا آئین کے تحت قانونی جواز نہ ہو۔
جسٹس منصور علی علی شاہ نے 5 صفحات پر مشتمل اپنے تحریر کردہ فیصلے میں لکھا کہ 'جب جج بے قابو عدالتی تجاوز پر گامزن ہوتے ہیں تو وہ عدلیہ کے حوالے سے عوامی تصور کو کم اور عدلیہ کے ادارے پر عوامی اعتماد کو کمزور کرتے ہیں'۔
انہوں نے مزید لکھا کہ 'یہ کرتے ہوئے ایسے جج اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے اور اپنے آئینی کردار کی جانب سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ نے ججز کی تعیناتی میں پارلیمان کا اختیار ختم کیا، بلاول بھٹو
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئینی جمہوریت قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی پر انحصار کرتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خبردار کیا کہ کوئی بھی ایسا حکم جو قانون کی حدود میں نہ ہو اور آئین و قانون سے اس کا جواز نہ نکل سکے وہ جمہوریت کی بنیادیں متزلزل اور حکومت کی دیگر شاخوں کو پریشان کردیتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ، سپریم کورٹ کے جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل اس تین رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے لاہور ہائی کورٹ کے 24 جنوری 2019 کو دیے گئے حکم کے خلاف میاں عرفان بشیر کی اپیل پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: ترقیاتی فنڈز کیس: لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا، جسٹس عیسیٰ
خیال رہے کہ لاہور کے مال روڈ پر اشتہارات اور سائن بورڈز ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس علی اکبر قریشی نے پنجاب میں پیٹرول پمپس کو ہیلمٹ نہ پہنے ہوئے موٹر سائیکل سواروں کو پیٹرول نہ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اس حکم کی خلاف ورزی پر پیٹرول پمپ کو سیل کرکے بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
مذکورہ حکم کے خلاف ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ میں اپیل دائر کی گئی تھی جو 24 جنوری 2019 کو مسترد ہوگئی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ میں اس اپیل پر فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کی حفاظت، دفاع اور تحفظ کا حلف اٹھانے والا آئینی جج اس حقیقت کو نہیں بھول سکتا کہ وہ خود سب سے پہلے آئین اور قانون کے تابع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس آصف سعید کھوسہ: 'عدالتی فیصلوں' سے 'حکومت کی آئینی اصلاح' تک
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی تجاوز اس وقت ہوتا ہے جب عدلیہ حکومت کی قانون ساز یا انتظامیہ شاخوں کے کاموں میں مداخلت کرنا شروع کردیتی ہے۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹرسائیکل سواروں اور پیٹرول پمپس کے خلاف ہدایات عدالتی طاقت کا از خود اختیار تھا جو آئین کے تحت ہائی کورٹ کو دستیاب نہیں۔