’گیم پلانر نے اس مرتبہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سبق سکھا دیا‘
سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد سے جنرل نشست پر حکومت کو ہونے والی شکست کے بعد پاکستان کے سیاسی ماحول میں بے یقینی کی کیفیت نے جنم لیا اور ہر طرف یہ بحث چل پڑی کہ اگر قومی اسمبلی میں حکومت کی اکثریت ختم ہوگئی ہے تو موجودہ حکومت اہل رہی یا نااہل۔
ابھی یہ بحث چل رہی تھی کہ وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے یہ خبر سامنے آئی کہ وہ اس بے یقینی کی صورتحال میں ایوان سے اعتماد لیں گے۔ پھر اس خبر کی تصدیق اس وقت ہوئی جب وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب کیا اور اس میں واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔
ابتدائی خیال تھا کہ شاید ان کی جانب سے یہ جذباتی فیصلہ ہے اور اگر اس بار بھی ان کی جماعت کے افراد نے اپوزیشن کا ساتھ دیا تو حکومت کے لیے صورتحال پریشان کن ثابت ہوسکتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ اپوزیشن نے اس اہم ترین اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور یوں 178 ووٹ حاصل کرکے عمران خان اعتماد کے ووٹ کی آزمائش میں کامیاب ہوگئے۔
لیکن یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ شاید جہاں سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخی رکی تھی، وہیں سے دوبارہ شروع ہوگی اور مزید شدت سے شروع ہوگی۔
آنے والے دنوں میں کیا ہوسکتا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن کیا کچھ کرسکتی ہیں اور انہیں کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے ہم نے سینئر تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
اویس توحید
آج کے ووٹ کی سیاسی وجوہات تھیں۔ سینیٹ میں گیلانی صاحب کی جیت اور حفیظ شیخ کی ہار سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ شاید عمران خان کی حکومت کمزور ہوگئی ہے اور وہ قومی اسمبلی کے اندر اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان اس تاثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں اور اس سے سیاسی فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت جو اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے وہ اتنی کمزور نہیں کہ آسانی سے گر جائے۔
وہ اس بات کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ ختم ہوگیا ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اپنے ووٹ عمران خان کو ہی دیے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ دونوں جماعتیں کس کی حمایت سے عمران خان کے ساتھ ہیں۔
تاہم عمران خان کی حکومت ہمیشہ ایک خوف کا شکار رہے گی، کیونکہ مقابلے میں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن جیسے تجربہ کار سیاستدان موجود ہیں اور وہ میدان میں واپس آگئے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں اور بلوچستان میں بھی عمران خان کو خطرہ ہوگا کیونکہ عثمان بزدار ایک کمزور وزیر اعلیٰ ہیں اور دوسری جانب بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) حکومت کو دھمکاتی رہے گی۔
میرا یہ خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن تو یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت گر جائے لیکن آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ موجودہ حکومت، جو ایک کمزور وکٹ پر کھڑی ہے اور لڑکھڑا رہی ہے اس کو مزید پریشان کیا جائے اور اس سیاسی نظام کے اندر اس کو مزید دوڑایا جائے۔ وہ اپنی حکمتِ عملی کے ذریعے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی توجہ ایک جانب مرکوز کریں گے اور خود کسی دوسری جانب سے حکومت کو نشانہ بنائیں گے۔
آنے والے دنوں میں انتشار اور سیاسی عدم استحکام نظر آرہا ہے۔ اپوزیشن کی نظریں اس وقت چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر ہیں اور وہ سینیٹ میں اپنا چیئرمین لانا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کو سینیٹ میں معمولی برتری حاصل ہے اور دوسری جانب زرداری صاحب بھی ماضی میں کیے گئے سیاسی گناہوں کا داغ دھونا چاہتے ہیں۔
ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ زرداری صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد کے حصول کی خاطر پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر سینیٹ چیئرمین کے لیے صادق سنجرانی کو کامیاب کروایا اور پھر حکومت کی عدم اعتماد کی تحریک بھی ناکام ہوئی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس مرتبہ اپوزیشن کا سب سے بڑا ہدف سینیٹ چیئرمین کے انتخابات ہیں اور اس کے لیے یوسف رضا گیلانی ہی قوی امیدوار نظر آرہے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ جس طرح حفیط شیخ ایک غیر مقبول اور غیر منتخب لیڈر تھے اور ان کے پاس لوگوں کی اتنی حمایت بھی نہیں تھی، بالکل اسی طرح صادق سنجرانی کو بغیر کسی مدد کے دوبارہ منتخب کرنا بہت مشکل ہوگا۔
اپوزیشن چاہتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور آئندہ آنے والے سیاسی واقعات میں حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے دُور رکھے اور اسی وجہ سے مریم نواز اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے اور آنے والے دنوں میں بھی حکومت سے فاصلہ اختیار کرتی جائے۔ عمران خان کے لیے مشکل وقت شروع ہوچکا ہے اور عمران خان اور ان کے ساتھیوں میں پہلی سی خود اعتمادی ختم ہوگئی ہے اور اب انہیں ہر وقت ایک دھڑکا ہی لگا رہے گا۔
فہد حسین
حفیظ شیخ صاحب کی شکست سے حکومت پر یہ خطرہ منڈلانا شروع ہوگیا تھا کہ عمران خاں کے پاس ایوان میں گنتی پوری نہیں ہے اور حکومت گِر سکتی ہے، لیکن وزیرِاعظم کو ملنے والے اعتماد کے ووٹ سے فوری طور پر یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔
لیکن آج پارلیمنٹ کے باہر ہونے والی بدمزگی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان معاملات طے پانے کا اگر کوئی امکان موجود بھی تھا تو وہ اب ختم ہوچکا ہے۔
اعتماد کے ووٹ سے وزیرِاعظم نے خود کو تو محفوظ کرلیا لیکن سینیٹ میں ان کی جماعت اس وقت محفوظ نہیں ہے۔ اس وقت تک غالب امکان یہی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے ہونے والا انتخاب اپوزیشن جیت سکتی ہے۔ اگر حکومت کے ہاتھ سے چیئرمین سینیٹ کی نشست چلی جاتی ہے تو حکومت کے لیے قانون سازی میں مشکلات بڑھ جائیں گی۔
خاص طور پر پاکستان جس آئی ایم ایف پروگرام میں جانے والا ہے اس میں موجود شرائط کے حوالے سے کچھ قانون سازی کی ضرورت ہے اور حکومت کا یہ خیال تھا کہ جب سینیٹ میں ان کی اکثریت آجائے گی تو وہ قانون سازی بھی کرلی جائے گی، لیکن اگر سینیٹ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے کنٹرول میں چلا گیا تو یہ قانون سازی بہت مشکل ہوجائے گی اور حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں خاطر خواہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد ڈسکہ میں بھی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اگر ڈسکہ میں مسلم لیگ (ن) جیت جاتی ہے تو اس کا فائدہ بھی پی ڈی ایم کو ملے گا۔
ڈسکہ انتخابات کے بعد اپوزیشن کی نظریں لانگ مارچ پر ہوں گی اور اگر ڈسکہ میں مسلم لیگ (ن) جیت جاتی ہے تو ممکن ہے کہ پی ڈی ایم مزید شدت کے ساتھ لانگ مارج کی تیاریاں کرے۔ اسی وجہ سے اگلے کچھ ہفتوں میں ملکی سیاست میں ابال آنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
دوسری جانب پی ڈی ایم کو یہ لگ رہا ہے کہ اب حالات ان کی حمایت میں ہیں۔ آج پارلیمنٹ کے باہر اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی بدمزگی کی وجہ سے پی ڈی ایم کے سڑکوں پر سیاست کرنے کے ارادے مزید پختہ ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
حکومت اور الیکشن کمیشن کے ساتھ ہونے والی محاذ آرائی بھی بہت اہم ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کے ساتھ محاذ آرائی کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں کوئی آئینی بحران جنم لے سکتا ہے اور اب یہ معاملہ بھی سیاسی ریڈار پر آچکا ہے۔
ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ سینیٹ کا انتخاب ہار چکے ہیں اور حکومت کو ان کی خدمات صرف جون تک ہی حاصل ہیں۔ اس وجہ سے یا تو حکومت کو انہیں کسی اور طریقے سے منتخب کروا کر ایوان میں لانا ہوگا یا پھر کوئی نیا وزیرِ خزانہ تلاش کرنا ہوگا۔ مگر ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک آئی ایم ایف پروگرام میں جا رہا ہے اور معیشت کو درست کرنے کے لیے حکومت کے پاس کچھ ہی عرصہ باقی ہے، تب ایک نیا وزیرِ خزانہ اپنے ساتھ نئے چیلنجز بھی لے کر آئے گا۔
اس لیے اگر حکومت نے معاملات کو درست طریقے سے حل نہیں کیا تو آنے والے کچھ ہفتے حکومت کے لیے مشکل ترین ثابت ہوسکتے ہیں۔
مجاہد بریلوی
اس مرتبہ ’گیم پلانر‘ نے ایک تیر سے 2 شکار کیے ہیں۔ میں یہاں گیم پلانر کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہ رہا کیونکہ جب بھی اپوزیشن کو شکست ہوتی ہے تو وہ بھی یہی نام لیتی ہے۔
لیکن کھیل کے منصوبہ سازوں نے ایک طرف تو عمران خان صاحب کو یہ بتادیا گیا ہے کہ ان کی سیاست اور سیاسی داؤ پیچ کا کوئی بہت زیادہ مستقبل نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سیاسی داؤ پیچ کے اثرات بہت گہرے ہیں۔
اب دیکھیے کہ جن اراکینِ پارلیمنٹ نے سینیٹ میں حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا وہ آج عمران خان کے ساتھ ہی موجود تھے۔
دوسری طرف اپوزیشن کو بھی ایک پیغام دیا گیا ہے۔ یعنی جس اپوزیشن نے 6 ماہ سے یہ بیانیہ اختیار کیا ہوا تھا کہ ان کا اصل مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ ان کو لانے والوں سے ہے، اب سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد پی ڈی ایم کے لیے یہ بیانیہ لے کر چلنا بہت مشکل ہوگا۔
ضرار کھوڑو
اس حکومت کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ خود حکومت ہی ہے۔ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیرِاعظم نے جو تقریر کی ہے وہ تقریر ہم نے کئی درجن مرتبہ سن رکھی ہے۔
وزیرِاعظم کا المیہ یہ ہے کہ وہ ون پارٹی اسٹیٹ کے وزیرِاعظم نہیں ہیں اور نہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے، چنانچہ وہ جس طرز سے حکومت کرنا چاہتے ہیں عملاً وہ اس طرز پر حکومت نہیں کرسکتے۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے باوجود ایک حقیقت ہے اور جس طرح عمران خان کو عوام نے ووٹ دیا ہے اسی طرح حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی عوام کے ووٹ سے ہی آئی ہیں۔ ملک میں انتخابی اصلاحات کی جو بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں وہ ’آرڈیننس فیکڑی‘ کے ذریعے نہیں ہوسکتیں۔ بدقسمتی سے ملک میں اسی طرح حکومت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حکومتی وزرا اور ترجمان جب بھی میڈیا پر آتے ہیں تو ان کا 90 فیصد وقت اپنی کارکردگی پر بات کرنے کے بجائے دوسروں کی بُرائیاں کرنے میں صرف ہوتا ہے۔
میرے خیال میں یہاں جس پر توجہ دی جانی چاہیے وہ اتحادیوں کی تقریر ہے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور ایم کیو ایم نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ حکومت کو ہماری یاد صرف اس وقت آتی ہے جب اسے ہماری ضرورت ہوتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے تو پورے ایوان نے کسی بھی غیر آئینی قدم کے خلاف نواز شریف کی حمایت کی تھی۔ اگر پارلیمان میں اس طرح کے فیصلے اور 18ویں ترمیم کی منظوری جیسے فیصلے ہوسکتے ہیں تو پھر حزبِ اختلاف کے ساتھ بھی معاملات طے پاسکتے ہیں۔ کوئی اس بات کی امید نہیں رکھ رہا کہ حکومت اپوزیشن کو گلے لگا لے لیکن ملک کو آگے لے جانے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا لیکن ابھی ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
عمران خان کے پاس بیانات تو بہت ہیں اور یہ بیانات ان کے حمایتیوں میں مقبول بھی ہیں لیکن بیانات سے نہ ہی پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی ملک چلتا ہے۔ ہمیں امید تھی کہ شاید آج وزیرِاعظم اپوزیشن کی جانب ایک ہاتھ بڑھائیں گے لیکن ظاہر ہے ایسا نہیں ہوا کیونکہ وزیرِاعظم کی شخصیت ہی ایسی ہے۔ جب آپ کی حکومت اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہو تو آپ کو دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات رکھنے ہوتے ہیں۔
تاہم یہاں صورتحال یہ ہے کہ حزبِ اختلاف تو دُور کی بات خود حکومت کے اتحادیوں نے بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں ایک طرح تنبیہہ کی ہے، اور پھر حکومت کی جانب سے تو پارلیمنٹ کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
سیاست میں ہر لمحے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اب دیکھیے کل یوسف رضا گیلانی کی جیت سے حزبِ اختلاف کی قوت میں اضافہ ہوا تو آج عمران خان کو اعتماد کا ووٹ ملنے سے حکومت کی پوزیشن بھی بحال ہوگئی ہے۔
نپولین کا مشہور جملہ ہے کہ ’اپنے دشمن کو اس وقت بالکل تنگ نہ کرو جب وہ کوئی غلطی کر رہا ہو‘۔ اسی وجہ سے اپوزیشن بھی اب صرف بیٹھ کر انتظار کرے گی۔ ویسے بھی اب اپوزیشن کو ردِعمل نہیں دینا بلکہ اب انہیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا قدم اٹھاتے ہیں۔
یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا کہ کیا چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے بعد اپوزیشن بھی ووٹ چوری کی بات کرتی ہے یا نہیں کیونکہ جس وقت صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے تب یہ نظام بہت اچھا تھا۔
میں ذاتی طور پر چاہتا ہوں کہ یہ حکومت اور عمران خان اپنی مدت مکمل کرے لیکن وہ اگر خود کو مزید مشکل میں نہ ہی ڈالیں تو بہتر ہے۔ عوام الزامات اور بیانات سے تنگ آچکے ہیں اور وہ اب عملی انتظامات کے منتظر ہیں۔
فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔