نقطہ نظر

میں ہرگز نہیں چاہتا کہ استاد میرے بچے کو مارے، لیکن ...

اگر ہم استادوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے رہے تو کیا اساتذہ میں بددلی نہیں پھیلے گی؟ وہ آپ کے بچے کو کیوں دل جمعی سے پڑھائیں گے؟

قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں مگر ہم اتنے سادہ ہیں کہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جاتے ہیں اور پھر بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہم نے ایسی بے شمار غلطیاں کی ہیں کہ جن کا خمیازہ پوری قوم کو دہائیوں تک ادا کرنا پڑا ہے۔

زیادہ دُور نہ جائیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کو ہی لے لیں۔ اس پر 2 آرا ہوسکتی ہیں کہ پاکستان کا دوسروں کی جنگ میں کودنا درست تھا یا نہیں لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ہمیں کبھی ادراک ہی نہیں ہوا کہ اس جنگ کے مضمرات سے خود کو کیسے بچانا ہے۔

جنگ کے بعد بھی سالوں ہم ہیروئن، کلاشنکوف اور انتہا پسندی کے خلاف لڑتے رہے۔ گاؤں کے گاؤں اس جنگ کی بھینٹ چڑھا دینے کے بعد بھی انتہا پسندی کا جو بیج ہم نے 1980ء کی دہائی میں بویا تھا آج تک اس کو جڑ سے نہ اکھاڑ پائے۔

اسی طرح ایک بار ہمیں ڈیزل انجنوں کا شوق ہوا۔ ہم نے ڈیزل سستا کردیا، دنیا بھر سے متروک انجن اکٹھے کرکے نئی اور جدید گاڑیوں میں کباڑ انجن ڈال دیے۔ پھر ہمارے بڑوں کو مال بنانے کا ایک نیا طریقہ سوجھا۔ گاڑیوں کو قدرتی گیس پر منتقل کردیا گیا۔ دنیا بھر سے کباڑ سی این جی اسٹیشن درآمد کرکے پورے ملک کی گاڑیاں گیس پر چلانے لگے۔ پیٹرول کے لیے بنی گاڑی جب گیس پر چلی تو جلد ہی انجن جواب دینے لگے۔ پیٹرول کی مد میں جو قلیل رقم بچی اس سے کئی گنا زیادہ انجن کی مرمت پر خرچ ہوگئی۔ ہم پھر بھی نہیں سمجھے اور ہوش اس وقت آیا جب گیس کی قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ لیکن اس وقت تک گیس کے بیش قیمت ذخائر ہم ایندھن کی مد میں جھونک چکے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم نے یہ تمام تر تجربے ترقی کے نام پر کیے۔

لیکن اس طرح کی کارروائیاں زیادہ دیر چھپی نہیں رہتیں اور عوام اپنے طور پر اس کا سدباب کرلیتے ہیں۔ اگرچہ انہیں اور ملک کو ایل این جی کی درآمد کی صورت میں ایک بھاری قیمت چکانی پڑی لیکن عوام نے چند ہی سالوں میں ڈیزل اور پھر گیس سے رفتہ رفتہ جان چھڑا ہی لی۔

کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر تو بڑے دلکش معلوم ہوتے ہیں اور ان پر سیاسی واہ واہ بھی خوب ہوتی ہے لیکن ان کا خمیازہ نسلیں بھگتی ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ تعلیمی اداروں میں مار پیٹ کے خلاف سرکاری سرپرستی میں چلنے والی حالیہ مہم کا بھی ہے۔

درس گاہوں میں بچوں پر تشدد ایک اہم مسئلہ ہے۔ سابقہ ادوار میں بڑے زور و شور سے ’مار نہیں پیار‘ کی مہم چلائی گئی جس سے تعلیمی اداروں میں مار پیٹ کا سلسلہ کافی حد تک تھم گیا تھا۔ لیکن پھر اوپر تلے بچوں پر درس گاہوں میں تشدد کے کچھ ایسے اندوہناک واقعات رونما ہوئے کہ پورے ملک کو سوگوار کرگئے۔

پھر سب نے اس محنت کش کے کرب کو محسوس کیا کہ جس کا کیڈٹ کالج میں زیرِ تعلیم بیٹا استاد کے مبینہ تشدد سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ اس بچے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ہر آنکھ بھر آئی۔ وہ تو بھلا ہو سندھ کے وزیرِ اعلی مراد علی شاہ کا جنہوں نے بچے کو علاج کے لیے سرکاری خرچے پر بیرونِ ملک بھجوایا اور بچہ تندرست ہوگیا۔ وہ بچہ تو صحت مند ہوگیا لیکن کئی بچے استاد کے تشدد سے جانبر نہ ہوسکے۔

اسی طرح کے کئی واقعات منظرِ عام پر آئے کہ اساتذہ کے تشدد سے طالب علموں کی جان چلی گئی۔ 2019ء میں سبق یاد نہ ہونے پر استاد نے مبینہ طور پر بچے کو اتنا پیٹا کہ وہ جاں بحق ہوگیا۔ چند غیر سرکاری تنظیموں نے اس مسئلے کو اتنا اجاگر کیا کہ بات قانون سازی تک پہنچ گئی۔

بچوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے سرگرم گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 79 کو معطل کردیا۔ 1861ء کا یہ قانون 12 سال سے کم عمر بچوں کی اصلاح کے لیے مار پیٹ کی اجازت دیتا تھا۔

شہزاد رائے کی ہی بھاگ دوڑ پر گزشتہ ماہ قومی اسمبلی نے بھی کارپورل پنشمنٹ یا بچوں پر تشدد کے خلاف ایک بل منظور کرلیا۔ قومی اسمبلی سے منظوری ابتدائی مرحلہ ہے، ایک پورے عمل سے گزرنے کے بعد ہی یہ قانون کا حصہ بنے گا جس کے بعد وفاقی دارالحکومت میں اگر کسی استاد نے کسی طالب علم کو پیٹا تو اس پر ایف آئی آر کٹے گی، اسے ہتھکڑی لگے گی اور وہ جیل جائے گا۔

یقیناً کوئی بھی شخص بچوں پر تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ ایک دو بار جب میرے بچوں کو اساتذہ کی سختی کا سامنا کرنا پڑا تو مجھے بھی سخت بُرا لگا۔ میں نے یہ جاننے کی زحمت کیے بغیر کہ مار پیٹ کی نوبت کیوں آئی ناصرف پرنسپل سے پُرزور احتجاج کیا بلکہ تحریری شکایت بھی کر ڈالی۔

لیکن میری رائے اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب کورونا کے دوران اسکول بند ہوگئے اور بچوں کا زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزرا۔ گھر میں بچوں کو پڑھانا ایک کٹھن کام ثابت ہوا۔ ایک جیسے معمولات سے وہ جلد ہی اکتا گئے اور کارٹون، کمپیوٹر اور کھیل میں ایسے مگن ہوئے کہ پڑھ کے ہی نہ دیتے تھے۔ بہت بہلانے اور پھسلانے سے جب وہ کسی طور پر قابو نہ آئے تو ماں نے سختی شروع کردی اور کبھی تو کسی کو تھپڑ بھی جڑ دیا، جبکہ ڈانٹ ڈپٹ تو معمول بن گیا۔

شروع میں مجھے بُرا تو بہت لگا لیکن ساتھ ہی یہ بھی احساس ہوا کہ بچوں کو ہر وقت ان کی مرضی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہر بچے کا مزاج مختلف ہوتا ہے لیکن کچھ بچے سختی سے ہی پڑھتے ہیں۔ اگر ایک نہیں پڑھ رہا ہو تو دوسرا بھی نہیں پڑھے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی طویل نفسیاتی سیشن کے بعد بچے رام ہو ہی جاتے لیکن اس کے لیے درکار صلاحیت کم از کم ہم میاں بیوی میں نہیں تھی۔

اب مجھے احساس ہوا کہ اساتذہ بچوں پر سختی کیوں کرتے ہیں۔ 24 گھنٹے ساتھ گزارنے کے باوجود بھی اگر ہمیں بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے میں اتنی مشکل پیش آرہی تھی تو استاد کیسے درجنوں بچوں کو 5، 6 گھنٹے میں پوری پوری کتابیں حفظ کروا دیتے ہیں۔

کئی سرکاری اسکولوں میں تو ایک کلاس میں شاگردوں کی تعداد 70 سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ یقیناً بچے کی تعلیم و تربیت میں اسکول کا ماحول اہم ہے لیکن مرکزی کردار استاد کا ہی ہے۔ اب مجھے استاد کی عظمت کا ادراک ہوا۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جو کسی لالچ کے بغیر معمولی تنخواہ پر بچوں کو ایک کارآمد شہری بنانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں۔

جب میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو ایک دلچسپ بات پتا چلی۔ اسلام آباد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی اکثریت سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ کسی وزارت میں سیکرٹری ہونا سرکاری افسر کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ ایک روز ایک سیکرٹری سے تعلیم پر بات ہورہی تھی تو انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ ’ان کی کامیابیاں ان کے اساتذہ کی سختی کی مرہونِ منت ہیں۔ اساتذہ کی سختی نے ہی ان میں سخت محنت کی عادت ڈالی‘۔

میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر سختی کے بغیر نہیں پڑھایا جاسکتا تو اشرافیہ کے وہ چند جدید اسکول بچوں کو کس طرح پڑھاتے ہیں جہاں جسمانی سزا کا تصور بھی نہیں۔

انہوں نے جواب دیا کہ ’ان اسکولوں کی تعلیم ایک بالکل مختلف عمل ہے۔ وہ اپنے بچوں کو گھروں میں تعلیم کا ماحول فراہم کرتے ہیں، ٹیوشن پڑھاتے ہیں مگر اس کے باجود مجموعی طور پر مقابلے کے امتحانات میں پوزیشن سرکاری اسکولوں کے بچے ہی لیتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک طویل لیکچر بھی دیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ بچہ یا تو شوق سے پڑھتا ہے یا خوف سے۔ متوسط یا نچلے طبقے کے اکثر بچوں کو وہ ماحول نہیں فراہم ہوتا کہ ان میں پڑھائی کا شوق یا تعلیم کی اہمیت کا ادراک پیدا ہو۔ یہ استاد کا خوف ہے کہ بچے دل لگا کر پڑھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ان میں محنت کی عادت اتنی پختہ ہوجاتی کہ وہ پھر زندگی کے کسی شعبے میں مار نہیں کھاتے‘۔

ان کا خیال تھا کہ ’بچوں پر بے جا تشدد کسی طور درست نہیں لیکن استاد کا ڈر اور ادب قائم رکھنے کے لیے ہلکی پھلکی موسیقی ضروری ہے۔ اگر ریاست استاد سے سزا کا حق مکمل طور پر لے لے تو استاد کا رعب ختم ہوجائے گا اور کم ہی بچے ہوں گے جو شوق سے پڑھ سکیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں غریب کے لیے تو روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ مقابلے اور مسابقت کے اس دور میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کے لیے بھی روزگار کا حصول مشکل ہے وہاں کم تعلیم یافتہ یا اوسط درجے کے طالب علموں کا کوئی مستقبل نہیں‘۔

یہ اگرچہ ایک انفرادی رائے تھی لیکن میرے لاشعور میں یہ بات بیٹھ گئی۔ جب غور کرنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ ہم تعلیم کے فروغ کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر تعلیم کبھی ہماری ترجیح نہیں رہی۔ گزشتہ سالوں میں کتنے نئے اسکول بنے؟ اساتذہ کی تنخواہوں میں کتنا اضافہ ہوا؟ ان کے لیے کون سے فلاحی منصوبے شروع کیے گئے؟ اپنے اردگرد نظر دوڑا لیں، آپ کو جواب مل جائے گا۔

آج جب اکثر دفاتر کے ادنٰی کلرک تک گاڑیوں پر دفتر آتے ہیں، تو گریڈ 17 یا 18 کے بیشتر اساتذہ کو سردی دھوپ اور بارش میں موٹر سائیکلوں پر اسکول آنا پڑتا ہے اور پرائمری سیکشن کے اساتذہ کا تو حال ہی نہ پوچھیں۔

والدین کے لیے دنیا میں اولاد سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں لیکن درس گاہوں میں تشدد کی مذمت میں ہمیں کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ انفرادی واقعات تھے اور لاکھوں اساتذہ کروڑوں طلبہ کو بڑی محنت سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے 19ء-2018ء کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ 72 ہزار اسکول ہیں جہاں 5 لاکھ 19 ہزار اساتذہ تقریباً سوا 2 کروڑ بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ سیکنڈری اسکولوں، ہنر مندی کی تعلیم دینے والے مراکز اور اعلی تعلیمی اداروں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

تعلیم و تربیت کے لیے بچوں پر جسمانی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں انگریز کے بنائے اعلٰی شہرت کے حامل پبلک اسکولوں میں کچھ دہائیوں پہلے تک کیننگ اور دوسری جسمانی سزائیں عام تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ کسی بھی شرارت پر تفریح کے پیریڈ میں درجنوں بچے آدھا گھنٹہ جسمانی سزا بھگتتے تھے۔ پرنسپل اور وائس پرنسپل کے پاس ایک مخصوص ڈنڈا ہوتا تھا جس کی چوٹ سے زیادہ آواز اتنی زناٹے دار ہوتی تھی کہ کھانے والے شرارت سے توبہ کرلیتے تھے۔

پاکستان ہی نہیں ترقی یافتہ ممالک میں بھی بچوں کی تربیت کے لیے جسمانی سزا ہی موثر سمجھی جاتی تھی۔ 1961ء تک یورپی اسکولوں میں بھی بچوں کو مارنے کا رواج تھا۔ یہ 1979ء میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بعد کی بات ہے کہ بیشتر یورپی ممالک میں گھر اور اسکول میں بچوں پر تشدد کی ممانعت ہوگئی۔

اس پر 2 آرا ہوسکتی ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس وقت مغرب کا یہ قانون موزوں بھی ہے یا نہیں، لیکن ہمیں اس بات کو ماننے میں ذرا بھی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ استاد کی عزت سب سے مقدم ہے۔

عاطف خان

صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔