'جس کو دیکھا گولی مار دوں گا'، میانمار کے فوجی ٹک ٹاک کے ذریعے مظاہرین کو دھمکانے لگے
میانمار میں فوجی اور پولیس اہلکاروں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر قابض ہونے والے فوجی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 'ٹک ٹاک' کے ذریعے موت کی دھمکی دینا شروع کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق ڈیجیٹل حقوق کے گروپ میانمار آئی سی ٹی فار ڈیولپمنٹ (میڈو) نے کہا کہ اسے فوج کی حمایت میں ایسی 800 سے زائد ویڈیوز ملیں جن میں مظاہرین کا خون بہایا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق میانمار میں صرف بدھ کو 38 مظاہرین ہلاک کر دیے گئے تھے۔
میڈو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ 'ویڈیوز کی یہ تعداد تو کچھ بھی نہیں ہے، ٹک ٹاک پر یونیفارم پہنے فوجی اور پولیس اہلکاروں کی ایسی سیکڑوں ویڈیوز موجود ہیں۔'
میانمار کی آرمی کے ترجمان اور جنتا نے ان ویڈیو پر کوئی بیان نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی حکومت کے خلاف احتجاج، پولیس کی فائرنگ سے مزید 38 افراد ہلاک
فروری کی ایک ویڈیو میں آرمی کی وردی میں موجود ایک شخص نے اپنی رائفل کا رخ کیمرے کی طرف کر رکھا ہے اور مظاہرین کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ 'میں تمہارے چہرے پر گولی ماروں گا اور میں اصلی گولیاں استعمال کر رہا ہوں۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں آج رات پورے شہر میں گشت کروں گا اور جس کو میں نے دیکھا اسے گولی مار دوں گا، اگر آپ شہید ہونا چاہتے ہو تو میں آپ کی خواہش پوری کروں گا۔'
ٹک ٹاک پر شیئر کی گئی ان ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
ٹاک ٹاک نے معاملے کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ 'ہماری بالکل واضح کمیونٹی گائیڈلائنز ہیں جن کے مطابق ہم ایسے مواد کی اجازت نہیں دیتے جس سے تشدد پر اکسایا جائے یا غلط معلومات پھیلے جس سے نقصان ہو۔'
بیان میں کہا گیا کہ 'جہاں تک میانمار کی بات ہے تو ہم مستقل طور پر ایسا تمام مواد ہٹا رہے ہیں جو تشدد کو ہوا دیتا ہے یا غلط معلومات پھیل رہی ہے جبکہ جارحانہ انداز میں ہماری گائیڈلائنز کے خلاف مواد ہٹانے کے لیے نگرانی کر رہے ہیں۔'
مزید پڑھیں: میانمار: آنگ سان سوچی کے خلاف عدالت میں سماعت، نئے الزامات عائد
واضح رہے کہ فیس بک پہلے ہی میانمار کی آرمی سے تمام پیجز پر پابندی لگا چکا ہے، جبکہ میانمار کی فوج بھی فیس بک پر پابندی لگا چکی ہے۔
اس کے بعد سے میانمار میں ٹک ٹاک کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ 20 سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپ میں شامل ہے۔
یاد رہے کہ میانمار میں یکم فروری کو فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے اور منتخب حکومتی رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی پارٹی کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ان کی جماعت نے بھاری اکثریت سے کامیابی کے لیے نومبر انتخابات میں دھوکا دہی کی۔
مذکورہ فوجی بغاوت، جس نے تقریباً 50 سال کی عسکری حکمرانی کے بعد جمہوریت کی طرف اٹھنے والے عارضی اقدامات کو روک دیا تھا، پر عوام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے جبکہ مغربی ممالک کی جانب سے بھی اس کی مذمت کی گئی۔