صحت

کووڈ سے کچھ ممالک میں بہت زیادہ اموات کی بڑی وجہ سامنے آگئی

کچھ ممالک میں زیادہ اموات کے حوالے سے مختلف خیالات سامنے آتے رہے ہیں، مگر اب ایک رپورٹ میں ایک ٹھوس وجہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

دنیا بھر میں طبی ماہرین کی جانب سے مہینوں سے یہ جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے کہ آخر کچھ کورونا وائرس کے نتیجے میں کچھ ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ کیوں ہے۔

اس حوالے سے مسلسل مختلف خیالات سامنے آتے رہے ہیں، مگر اب ایک رپورٹ میں ایک ٹھوس وجہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

درحقیقت ایسے ممالک جیسے امریکا اور برطانیہ، جہاں زیادہ جسمانی وزن کے مالک افراد کی تعداد زیادہ ہے، وہاں کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاکتوں کی شرح بھی دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کووڈ کے نتیجے میں دنیا بھر میں ہونے والی 25 لاکھ اموات میں سے 22 لاکھ ان ممالک میں ہوئی، جہاں موٹاپے کے شکار افراد کی آبادی زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق ممالک جیسے امریکا، برطانیہ اور اٹلی وغیرہ میں جہاں 50 فیصد سے زیادہ بالغ افراد کا جسمانی وزن صحت مند سطح سے زیادہ ہے، وہاں کورونا وائرس سے ہلاکتیں بھی زیادہ ریکارڈ ہوئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسئلہ صرف موٹاپے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں جس جسمانی وزن کو معمول یا صحت مند سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی شرح اموات ان ممالک سے 10 گنا زیادہ ہے جن کے شہریوں کی نصف سے زائد آبادی کا جسمانی وزن 18 سے 25 بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) ہوتا ہے۔

ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن نے کہا کہ زیادہ جسمانی وزن کے مالک افراد کو ویکسینیشن میں ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ ان میں کووڈ سے موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے ممالک جہاں 50 فیصد سے زیادہ بالغ آبادی کا جسمانی وزن صحت مند سطح سے زیاہد تھا، ان میں بیجلئم شرح اموات میں سب سے اوپر ہے، جس کے بعد سلوانیا اور برطانیہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھے، جبکہ اٹلی 5 ویں اور امریکا 8 ویں نمبر پرتھے۔

دوسری جانب بالغ آبادی میں اوور ویٹ آبادی کی شرح سب سے کم ویت نام تھی، جہاں کووڈ 19 سے شرح اموات دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے کم رہی۔

ویت نام میں زیادہ جسمانی وزن کے مالک افراد کی تعداد 18.3 فیصد ہے جبکہ سب سے کم شرح اموات افریقی ملک برونڈی میں ریکارڈ ہوئی جہاں بالغ آبادی میں اوور ویٹ افراد کی تعداد 22.2 فیصد ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانم گیبریسس نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ عالمی سطح پر حکومتوں کے لیے خواب غفلت سے جگانے کا کام کرسکتی ہے تاکہ وہ موٹاپے اور اس کے نتیجے میں لاحق ہونے والے طبی مسائل کی روک تھام کا کام کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ موٹاپے اور کووڈ 19 سے اموات کی شرح کے درمیان تعلق واضح ہے، موٹاپے کی وجوہات پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ممالک وبا کے بعد بہترین طبی نظام کو تشکیل دے سکیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اموات کی شرح کا سب سے بڑا عنصر عمر تھی جس کے بعد جسمانی وزن زیادہ ہونا دوسرا بڑا عنصر ہے۔

رپورٹ مرتب کرنے والے ڈاکٹر ٹم لوبسٹین جو عالمی ادارہ صحت کے سابق مشیر ہیں، نے کہا کہ ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ کسی ملک کی بالغ آبادی کا زیادہ جسمانی وزن اور کووڈ 19 کی اموات کے درمیان تعلق موجود ہے۔

اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ موٹاپا کووڈ 19 سے موت کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھا سکتا ہے جبکہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کا خطرہ 113 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد کو اکثر مختلف امراض جیسے امراض قلب یا ذیابیطس ٹائپ ٹو کا سامنا بھی ہوتا ہے، جو کورونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

اسی طرح جسم میں اضافی چربی سے میٹابولک تبدیلیاں جیسے انسولین کی مزاحمت اور ورم بھی ہوتی ہیں جو جسم کے لیے بیماریوں کے خلاف لڑائی مشکل بناتی ہیں۔

حال ہی میں ایک تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا تھا کہ فائزر/بائیو این ٹیک کی کووڈ 19 ویکسین ممکنہ طور پر موٹاپے کے شکار افراد میں کم مؤثر ہوتی ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ موٹاپے کے شکار طبی ورکرز میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد اینٹی باڈیز بننے کی شرح عام وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم تھی۔

کورونا اور موٹاپا : دنیا کو 2 عالمی وباؤں کا بیک وقت سامنا

چینی کمپنی کی کووڈ 19 ویکسین کی افادیت 83.5 فیصد قرار

کیا آسانی سے دستیاب ایک دوا کووڈ 19 کا علاج ثابت ہوسکے گی؟