کوئٹہ گلیڈی ایٹرز: جس کے نہ کھلاڑی چلے نہ قسمت چلی
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز جو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے ابتدائی 4 سیزنز میں کامیاب ترین ٹیم شمار ہوتی تھی، اسے گزشتہ سیزن کے چوتھے میچ کے بعد ناجانے کیا ہوا کہ وہ جیتنا ہی بھول چکی ہے۔
ان ابتدائی 4 سیزنز میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ہر مرتبہ پلے آف مرحلے میں پہنچی، صرف یہی نہیں بلکہ 3 بار فائنل کھیلا اور ایک مرتبہ تو چیمپیئن بھی قرار پائی۔
جب لیگ کا 5واں سیزن شروع ہوا تو اچانک اس نے عمر اکمل کو اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کے باعث کھو دیا۔ کوئٹہ کے لیے اگرچہ یہ بڑا نقصان تھا لیکن اس کے باوجود اس ٹیم نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے ابتدائی 4 میچوں میں سے 3 میں اس نے کامیابی حاصل کرلی۔ اس موقع پر تو یہی لگ رہا تھا کہ سرفراز احمد کی یہ ٹیم پلے آف مرحلے میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن جائے گی، مگر بدقسمتی سے زوال کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ اگلے 6 میچوں میں صرف ایک کامیابی نے کوئٹہ کو 5ویں پوزیشن پر لا کھڑا کردیا اور لیگ کی تاریخ میں پہلی بار کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پلے آف مرحلے تک رسائی میں ناکام رہی۔
اس بار نیا ٹورنامنٹ تھا اور کھلاڑی بھی بہت حد تک تبدیل ہوچکے تھے، تو خیال تھا کہ گلیڈی ایٹرز ایک نئے جذبے سے آئے ہوں گے لیکن چوتھے میچ کے اختتام پر ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ ہاں اگر تبدیلی کہیں نظر آئی تو وہ صرف 2 ہی کھلاڑیوں میں نظر آئی، یعنی بیٹنگ میں سرفراز احمد بہترین بیٹنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف باؤلنگ میں محمد حسنین اپنے دیگر ساتھیوں کے نسبت بہتر کھیل پیش کررہے ہیں۔
سرفراز احمد پہلے میچ میں اوپننگ کے ناکام تجربے کے بعد نمبر 4 پر شفٹ ہوئے تو ان کی بیٹنگ کا انداز ہی بدل کر رہ گیا۔ سرفراز عمدہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ بڑے چھکے بھی لگا رہے ہیں، لیکن ان کی بیٹنگ تو چل پڑی پر قسمت ابھی تک نہ کھل سکی۔ نہ ہی اب تک وہ ٹاس جیت پائے ہیں اور نہ ہی میچ۔ سرفراز احمد جو ہمیشہ ہی ٹاس جیت کر فیلڈنگ کرنا پسند کرتے ہیں مسلسل چاروں ٹاس ہار چکے اور وہ بھی تب جب پہلے بیٹنگ کرنا اور شکست لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔
کوئٹہ کے لیے بڑے مسائل
لیکن بدقسمتی سے اب تک کوئی دوسرا بیٹسمین سرفراز احمد کا ساتھ نہیں دے سکا ہے۔ پچھلے سال پشاور زلمی کی جانب سے ناکام رہنے والے ٹام بینٹن اس بار کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے پہلے 2 میچوں میں ناکام رہے تو ان کی جگہ کیمرون ڈیلپورٹ کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا، لیکن کراچی کنگز کے لیے چند اچھی اننگز کھیلنے والے ڈیلپورٹ بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے دونوں میچوں میں ابھی تک ناکام ہی ہیں۔
ایک اور المیہ یہ دیکھیں کہ ویسے تو پی ایس ایل میں کرس گیل ہمیشہ ہی ناکام رہے ہیں، لیکن اس بار جب وہ اچھی فارم میں نظر آرہے تھے اور کوئٹہ کے لیے انہوں نے رنز بھی بنائے تو محض 2 میچوں کے بعد ہی انہیں سری لنکا کے خلاف سیریز کے لیے قومی ٹیم سے بلاوا آگیا۔ ویسے تو گیل کا جانا پہلے سے طے تھا لیکن ایسی فارم میں ان کا جانا گلیڈی ایٹرز کے لیے بڑا نقصان تھا۔
فاف ڈوپلیسی اسکور تو ضرور بنائیں گے, چند اچھی اننگز بھی کھیل لیں گے مگر کرس گیل کا اس فارم میں ہونا مخالف ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھا، لیکن اب وہ گھنٹی خاموش ہوچکی اور جب تک گیل کی واپسی ہوگی تب تک ناجانے گلیڈی ایٹرز کے لیے پلے آف میں جانے کی امیدیں بچیں گی یا نہیں۔
ابھی تک تو ہم نے غیر ملکی کھلاڑیوں کا ذکر کیا، لیکن کوئٹہ کے لیے مقامی بیٹسمینوں کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ثابت ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں صائم ایوب کی۔ پچھلے کچھ سیزنز میں احسن علی کو مسلسل مواقع فراہم کرنے کے بعد اس بار گلیڈی ایٹرز نے صائم ایوب کو موقع دینے کا فیصلہ کیا۔
صائم انڈر 19 سے سندھ کی سیکنڈ الیون میں آئے تھے اور وہیں سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے ان کا انتخاب کرلیا۔ ایک اچھی شہرت کے ساتھ اس ٹورنامنٹ میں شامل ہونے والے صائم کی تعریفیں کرس گیل بھی کرتے نظر آئے، لیکن صائم چند اچھی شاٹس کھیلنے کے علاوہ ابھی تک اس ٹورنامنٹ میں کچھ خاص تاثر قائم نہیں کرسکے۔
اسی طرح اعظم خان 4 میچوں میں صرف ایک میچ میں ہی اچھی بیٹنگ کرسکے اور اس میچ میں جب ان کی بیٹنگ کی سخت ضرورت تھی تو وہ ایک غیر ضروری شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوگئے۔ اعظم خان کو سمجھنا ہوگا کہ ٹی20 کرکٹ صرف چھکوں کا کھیل نہیں ہے، کسی وقت یہاں بھی وکٹ پر وقت گزارنا ضروری ہو جاتا ہے۔
اچھی کارکردگی کی شدید ضرورت
یہ بات ٹھیک ہے کہ کوئٹہ ابھی تک کوئی ٹاس نہیں جیت پائے لیکن اس پر ان کا کوئی زور نہیں ہے، جس پر ان کا زور ہے وہ محض اچھی کارکردگی ہے جو ابھی تک نظر نہیں آئی۔
مثال کے طور پر گلیڈی ایٹرز کے بیٹسمین اپنے باؤلرز کو ایک میچ کے علاوہ ایسا اسکور نہیں دے پائے جس کا دفاع بیٹنگ وکٹوں پر ممکن ہوتا۔ صائم ایوب کو چار مواقع مل چکے اور وہ مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ انہیں کچھ میچوں کے لیے آرام دیا جائے۔ باہر بیٹھ کر شاید انہیں احساس ہو کہ انہیں کتنا بڑا موقع ملا ہے اور انہیں اس موقع سے کس طرح فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ایک اور مسئلہ جس پر زیادہ بات نہیں ہورہی، وہ کوئٹہ کی جانب سے بیٹنگ پاور پلے کا فائدہ نہ اٹھانا بھی ہے۔ اس لیے اب کچھ نیا سوچنے اور کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹام بینٹن اور کیمرون ڈیلپورٹ کو اکٹھے آزمایا جاسکتا ہے۔ مڈل آرڈر میں عثمان خان کو موقع دیا جاسکتا ہے جو کچھ دن پہلے امارات میں ہوئے ایک ٹی20 ٹورنامنٹ میں بہترین فارم میں نظر آئے۔
اعظم خان کو بطور اوپنر بھی آزمایا جاسکتا ہے تاکہ دائرے کا فائدہ اٹھایا جاسکے، لیکن اگر انہیں مڈل آرڈر میں ہی کھلانا ہے تو کوشش کی جائے کہ انہیں کم سے کم اوور کھیلنے کا موقع ملے۔ اگر اس میچ کی ہی مثال لی جائے تو محمد نواز کو اعظم خان اور بین کٹنگ سے پہلے بھیجا جا سکتا تھا، اور پھر اگر نواز اور سرفراز اننگ کو سنبھالا دے پاتے تو آخری اوورز میں اعظم خان اور بین کٹنگ تیز کھیل کر اننگ کو اچھی پوزیشن میں لے جاسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔
بیٹنگ کی طرح باؤلنگ پاور پلے میں بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم ناکامی کا شکار رہی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ محمد نواز سرفراز احمد کا اہم ہتھیار رہے ہیں لیکن پال اسٹرلنگ نے نواز کے پہلے ہی اوور میں جارحانہ مزاج دکھا کر ایسا ماحول بنادیا کہ اس کم اسکور کے باوجود کوئٹہ کے لیے جیت کی کوئی امید اگر تھی بھی تو وہ ختم ہوگئی۔ رہی سہی کسر رن آؤٹ کا موقع ضائع کرکے اور کیچ چھوڑ کر پوری کردی گئی۔ پال اسٹرلنگ نے نواز کے بعد نسیم شاہ، ڈیل سٹین اور محمد حسنین کے خلاف بھی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
پھر اس میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے فہیم اشرف نے ایک بہترین اسپیل کیا اور ان کا پورا ساتھ ان کے دوستوں شاداب خان اور حسن علی نے دیا۔ یونائیٹڈ کی جانب سے اس میچ میں واحد کمزور پوائنٹ محمد موسی کی مہنگی باؤلنگ تھی۔ محمد موسی اس ٹورنامنٹ میں اپنا پہلا میچ کھیل رہے تھے، لیکن بدقسمتی سے وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔
اگر بیٹنگ کی بات کی جائے تو روحیل نذیر کو اس بار پہلا موقع ملا اور انہوں نے اس سے بہت اچھا فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے ناصرف وکٹ کے پیچھے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ بیٹنگ میں بھی خوب جوہر دکھائے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم پچھلے سال کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ ہی پلے آف مرحلے سے باہر ہوئی تھی مگر اس بار انہوں نے بہتر آغاز لیا ہے۔ قسمت بھی شاداب اور یونائیٹڈ کے ساتھ ہے اور وہ تین ٹاس جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے زیادہ تر کھلاڑی بھی فارم میں لگ رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ فارم صرف ٹاس جیتنے پر ہی ساتھ دیتی ہے۔
پاکستان میں پی ایس ایل کی آمد اور کوئٹہ کا زوال
جب سے پی ایس ایل کا مکمل انعقاد پاکستان میں ہوا ہے تب سے ہی ایسا لگ رہا ہے جیسے سرفراز کے منصوبے اتنے کارآمد نہیں رہے جتنے متحدہ عرب امارات میں تھے۔ اب ٹورنامنٹ تو واپس امارات منتقل نہیں ہوگا، لیکن کپتان سرفراز احمد اور کوچ معین خان کو اپنی منصوبہ بندی میں ہی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی گلیڈی ایٹرز کے تمام چاہنے والوں کو اب یہی دعا کرنی ہوگی کہ اگلے میچ میں سرفراز احمد ٹاس جیت جائیں تاکہ جیت کی کوئی راہ ہموار ہوسکے۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔