سپریم کورٹ: وکلا کو فٹ بال گراؤنڈ خالی کرنے، چیمبرز مسمار کرنے کا حکم برقرار
سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایف-8 کے فٹ بال گراؤنڈ میں وکلا کے چیمبرز مسمار کرنے کے حکم کے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے وکلا کو گراؤنڈ خالی کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فٹ بال گراؤنڈ میں تعمیر شدہ وکلا کے چیمبرز گرانے کا حکم دیا تھا جس کے خلاف اسلام آباد بار کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی جس نے گزشتہ سماعت میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو فٹ بال گراؤنڈ، گرین بیلٹس اور فٹ پاتھوں پر بنے وکلا کے غیر قانونی چیمبرز کو گرانے سے روک دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو وکلا کے چیمبرز گرانے سے روک دیا
وکلا نے اپنے کمپلیکس کی تعمیر مکمل ہونے پر زمین کو خالی کرنے سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا جس پر عدالت نے 2 مارچ تک کے لیے حکم امتناع جاری کیا تھا۔
تاہم آج ہونے والی سماعت میں وکیل شعیب شاہین نے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ فٹبال گراؤنڈ پر کئی عدالتیں بھی بنی ہوئی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو عدالتیں گراؤنڈ کی زمین پر بنی ہوئی ہیں وہ بھی مسمار کردیں۔
ایڈووکیٹ حامد خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ نئی عمارت میں منتقل ہونے تک کی مہلت دینے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی غیرقانونی کام کو جواز کیسے فراہم کردیں؟
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ایف ایٹ فٹبال گراؤنڈ میں قائم غیر قانونی چیمبرز فوری طور پر مسمار کیے جائیں جس وکیل نے پریکٹس کرنی ہے وہ اپنا دفتر کہیں اور بنائے۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ کا فٹ بال گراؤنڈ پر وکلا کی غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا حکم
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے فٹ بال گراؤنڈ تجاوزات کیس کو نمٹاتے ہوئے وکلا کو کہا تھا کہ وہ 28 فروری تک رضاکارانہ طور پر زمین خالی کردیں، ساتھ ہی سی ڈی اے کو ہدایت کی تھی کہ وہ کھیل کے میدان کی زمین واپس لے اور 23 مارچ کو وہاں انٹر کالجز فٹ بال میچز منعقد کرائے۔
حکم نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ اسلام آباد ڈسٹرک بار کی جانب سے کھیل کے میدان میں کی گئی الاٹمنٹس غیر قانونی، غلط اور کسی دائرہ اختیار کے بغیر تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا تھا کہ کسی بھی ریاستی زمین پر تجاوزات اور کوئی بھی تعمیر 1960 کے آرڈیننس اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں فوری ختم کیا جائے۔
ساتھ ہی عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بلا تاخیر ضلعی عدالتوں کے لیے جدید سہولیات سے آراستہ کمپلیکس کی تعمیر شروع کی جائے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
تاہم پی بی سی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
فٹ بال گراؤنڈ پر تجاوزات کا معاملہ
خیال رہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر-8 میں موجود فٹ بال گراؤنڈ کو وکلا کے سابق عہدیداران نے 5 بلاکس میں تقسیم کیا تھا جس میں وکلا کے چیمبرز غیر قانونی طور پر قائم کیے گئے تھے، سال 2013 میں سی ڈی اے نے 30 کے قریب چیمبرز کو مسمار کیا تھا تاہم نصف پلاٹ سے وکلا کا قبضہ نہ چھڑایا جاسکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : معاملہ ختم کرنے کیلئے وکلا خود حملہ کرنے والوں کے نام دیں، اسلام آباد ہائی کورٹ
چنانچہ فروری 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فٹ بال گراؤنڈ پر وکلا کے 500 چیمبر کی 'غیر قانونی' تعمیر پر از خود نوٹس بھی لیا تھا تاہم 10 ماہ تک معاملہ زیر التوا رہنے کے بعد اسے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوادیا گیا تھا۔
مذکورہ معاملہ دوبارہ اس وقت شدت کے ساتھ منظر عام پر آیا جب 7 فروری کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔
اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: 'غیر قانونی چیمبرز' مسمار کرنے پر وکلا کا احتجاج، ہائی کورٹ پر دھاوا
اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کو کئی گھنٹوں تک محصور رکھا گیا۔
بعدازاں پولیس نے اس واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے چند ملزمان کا ریمانڈ بھی حاصل کرلیا تھا۔
اس سلسلے میں مختلف درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔