یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
طبی جریدے جرنل فزکس آف فلوئیڈز میں شائع تحقیق میں دیکھا گیا کہ عام بات چیت کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ذرات کتنی دور تک جاتے ہیں۔
جاپانی سائنسدانوں کی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ حقیقی دنیا میں اکثر جسمانی دوری کی ہدایات پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوتا تو وائرس سے بچاؤ کے لیے کیا احتیاط کی جاسکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے لیزر کا استعمال کیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ تحقیق میں شامل رضاکار بات چیت کے دوران کتنے ذرات کسی ایک دفتر منہ سے خارج کرتے ہیں۔
ایسا مختلف مامات پر کیا گیا جیسے ہیئر سیلون، دفاتر اور طبی مراکز۔
محققین نے بتایا کہ دوبدو گفتگو کے دوران بغیر ماسک پہنے فرد کے منہ سے اتنی مقدار میں ذرات خارج ہوتے ہیں جو کسی دوسرے کو کورونا وائرس کا شکار بناسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بیٹھے یا کھڑے فرد نے ماسک پہنا ہو تو بھی بات چیت کے دوران ذرات کے بادل باہر نکلتے ہیں، مگر یہ بادل جلد نیچے کہنی پر گرجاتے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ فیس ماسک اور فیس شیلڈ کا امتزاج ذرات کے ان بادلوں کو ماسک کے کونوں سے نکلنے سے روکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فیس شیلڈ خارج کی جانے والی سانس کو ماسک سے باہر نکلنے سے روکتی ہے، تو ان دونوں کا استعمال زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
تاہم ایسا ممکن نہیں تو زیادہ افراد والے مقام پر کم از کم فیس ماسک کا استعمال تو ضرور کرنا چاہیے تاکہ بیماری کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جاسکے۔
اس سے قبل جنوری 2021 میں ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کھانسی کے مقابلے میں گفتگو سے کووڈ 19 کا پھیلاؤ زیادہ ہوسکتا ہے، بالخصوص ایسی چار دیواری میں جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص ہو۔
تحقیق میں مزید دریافت کیا گیا کہ ناقص نکاسی کے نظام والے مقامات میں کورونا وائرس سیکنڈوں میں 2 میٹر سے زیادہ دور تک پھیل جاتا ہے۔
طبی جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی اے میں شائع تحقیق کے لیے ریاضیاتی ماڈل کو استعمال کرکے وضاحت کی گئی کہ کووڈ 19 چار دیواری کے اندر کس طرح پھیل سکتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن مقامات میں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص ہوتا ہے اور لوگ فیس ماسک نہیں پہنتے، وہاں کھانسی کے مقابلے میں بات چیت سے ہی وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم بات کرتے ہیں تو ایسے چھوٹے ذرات بنتے ہیں جو ہوا میں معلق ہوکر ایسے حصوں میں پھیل جاتے ہیں، جہاں ہوا کی نکاسی مناسب نہیں ہوتی۔