نقطہ نظر

جمال خاشقجی کا قتل: کیا نئی امریکی حکومت ولی عہد کو قاتل سمجھتی ہے؟

جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اگر کسی حلیف ملک کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں تیز تر سرگرمی دکھائی ہے تو وہ ہے سعودی عرب ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک ماہ کے اندر اگر کسی حلیف ملک کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں تیز تر سرگرمی دکھائی ہے تو وہ ہے سعودی عرب ہے۔

سب سے پہلے تو بائیڈن نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی مدد ختم کی، بڑی اسلحہ ڈیل کو منجمد کیا، پھر سعودی ولی عہد، جو عملی طور پر بادشاہ کے اختیارات سنبھالے ہوئے ہیں، ان کی تحقیر کی اور وائٹ ہاؤس نے شاہ سلمان سے ٹیلیفون پر رابطے سے پہلے یہ وضاحت کی کہ صدر بائیڈن شاہ سلمان کے ساتھ بات کریں گے اور ولی عہد کسی بھی طرح ان کے ہم منصب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی کہا گیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، اس کے لیے تعلقات ’ری سیٹ‘ کرنے کی اصطلاح استعمال کی گئی۔

امریکا اور سعودی عرب تعلقات میں سب سے ڈرامائی موڑ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا اجرا ہے۔ امریکی کانگریس نے اس رپورٹ کی اشاعت لازم قرار دی تھی لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس رپورٹ کی اشاعت روک رکھی تھی۔ اس رپورٹ میں کچھ بھی نیا نہیں، سعودی ولی عہد کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں، حالات و واقعات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کی گرفتاری یا قتل کا حکم دیا تھا۔

یہ وہی نتیجہ ہے جو 2 سال پہلے اخذ کرکے میڈیا کو بتایا جاچکا ہے۔ اس رپورٹ کے اجرا سے یوں لگتا ہے کہ بائیڈن سعودی ولی عہد کی ساکھ خراب کرنا چاہتے ہیں اور یہ ان ڈیموکریٹ اراکین کانگریس کے ایما پر کیا جا رہا ہے جو سعودی ولی عہد کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی اور ذاتی مراسم کی سزا دینا چاہتے ہیں۔

ان اراکین کانگریس کی طرف سے ابھی بائیڈن پر مزید دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ ’خاشقجی پابندیوں‘ کی زد میں سعودی ولی عہد کو بھی لائیں، یہی وہ دباؤ ہے جس کے تحت بائیڈن نے ہفتے کے اختتام پر بیان دیا کہ وہ پیر کے روز سعودی عرب کے حوالے سے اہم بیان جاری کریں گے۔

بائیڈن کی طرف سے پیر کے روز ممکنہ اعلان براہِ راست سعودی ولی عہد کے حوالے سے نہیں ہوگا بلکہ امکان ہے کہ ولی عہد کی سربراہی میں قائم ویلتھ فنڈ، جسے پبلک ویلتھ فنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، پابندیوں کی زد میں آجائے۔ امریکی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جمال خاشقجی کے قتل کے لیے جانے والی ٹیم نے جو طیارہ استعمال کیا وہ اسی ویلتھ فنڈ سے خریدا گیا تھا۔ اسی دعوے کو بنیاد بناکر اس ویلتھ فنڈ کو ہدف بنایا جاسکتا ہے۔

اگر ایسا کیا گیا تو یہ سعودی معیشت کے لیے ایک زلزلے سے کم نہیں ہوگا۔ عرب ممالک میں ویلتھ فنڈ تیل کی دولت جمع کرنے اور انہیں ذاتی کنٹرول میں رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ فنڈ حکمرانوں کی ذاتی ضروریات کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں بحران کی صورت میں ملکوں کے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ملک کو معاشی دھچکوں سے بچانے کا مؤثر آلہ ہیں۔ سعودی عرب کا پبلک ویلتھ فنڈ 360 ارب ڈالر حجم کا ہے اور دنیا کے 8ویں بڑے ویلتھ فنڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ویلتھ فنڈ سعودی عرب کے طویل مدتی معاشی استحکام کی ضمانت ہے۔

جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران جمال خاشقجی کے قتل پر سخت بیانات دیتے ہوئے سعودی عرب کو ایک ’اچھوت‘ ریاست بنانے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے، اور اب رپورٹ کے اجرا کے بعد امریکی میڈیا انہیں یہ دعوے یاد دلا کر اکسا رہا ہے کہ وہ اب کچھ کرکے دکھائیں۔

بائیڈن اس سے پہلے بارک اوباما کے ساتھ نائب صدر رہ چکے ہیں اور اوباما انتظامیہ کے تعلقات بھی سعودی عرب کے ساتھ زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ اوباما نے ہی ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے تھے، اور اب بائیڈن بھی اسی سوچ کو لے کر چل رہے ہیں لیکن کیا مستقبل کے بادشاہ پر پابندیاں امریکی مفاد میں ہیں؟ ایک صدارتی امیدوار اور امریکا کے صدر کی حیثیت یکسر مختلف ہے۔ اب بائیڈن کے لیے ان دعوؤں پر عمل آسان نہیں اور وہ تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں۔

امریکا کے باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سعودی ولی عہد پر پابندیوں کا آپشن زیرِ غور تھا ہی نہیں، امریکی صدر جو بائیڈن کو ان کی نیشنل سیکیورٹی ٹیم اور محکمہ خارجہ نے صلاح دی تھی کہ مستقبل کے بادشاہ پر پابندیاں پیچیدگیوں کو بڑھا دیں گی اور سعودی عرب میں امریکی فوجی مفادات کو زک پہنچے گی۔ اسی لیے بائیڈن انتظامیہ نے محکمہ خارجہ کو سعودی ولی عہد پر پابندیوں کے حوالے سے کسی جائزہ رپورٹ کی تیاری کے لیے کہا ہی نہیں تھا اور نیویارک ٹائمز کو یہ خبر خود ہی لیک کی گئی کہ سعودی ولی عہد پابندیوں کی زد میں نہیں آئیں گے۔

امریکی صدر بائیڈن سے ایک انٹرویو میں سوال بھی کیا گیا کہ کیا وہ جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے سعودی ولی عہد پر زور دیں گے کہ وہ انسانی حقوق کا دھیان رکھیں، جس پر بائیڈن کا جواب تھا کہ ’وہ سعودی ولی کے ساتھ نہیں بلکہ سعودی شاہ کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں۔ اب قواعد بدل رہے ہیں اور پیر کے روز نمایاں تبدیلیاں سامنے آسکتی ہیں، اگر سعودی عرب کو ہمارے ساتھ معاملات رکھنے ہیں تو انہیں انسانی حقوق کا دھیان رکھنا پڑے گا‘۔

سعودی ولی عہد کے متعلق براہِ راست کسی بڑے اقدام کی ’سفارتی قیمت‘ بہت بھاری اور خطرناک ہوگی۔ بائیڈن انتظامیہ کو غیر ارادی نتائج سے خبردار رہنے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ اس کا واسطہ ایک ’جنگجو شہزادے‘ سے ہے، جو کچھ کر گزرنے پر آئے تو نتائج کی پروا نہیں کرتا اور شہزادے کی جنگجوانہ فطرت کی گواہی ماضی کے واقعات دیتے ہیں۔

امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا اجرا ایک سیاسی اقدام ہے لیکن اس سے اقدامات اور جوابی اقدامات کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے جس سے خطے میں امریکی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔

صدر بائیڈن کا بار بار یہ کہنا کہ وہ سعودی ولی عہد کے ساتھ معاملات طے نہیں کریں گے، امریکی اور یورپی میڈیا میں یہ تاثر پیدا کر رہا ہے کہ شاید امریکا محمد بن سلمان کے بادشاہ بننے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ بائیڈن کا شاہ سلمان کو چننا اور ان کے ولی عہد کو دھتکار دینا امریکی انتظامیہ کے ذہنی الجھاؤ کو آشکار کر رہا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی میں انتہائی بائیں بازو کے لوگ بائیڈن کی الجھن کو بڑھا رہے ہیں۔

امریکی اور یورپی میڈیا میں محمد بن سلمان کو بادشاہت سنبھالنے سے روکنے کی باتیں سعودی سیاسی معاملات اور شاہی خاندان سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہیں۔ شاہ سلمان کی صحت زیادہ اچھی نہیں اور امورِ سلطنت انہوں نے خود ولی عہد کے حوالے کر رکھے ہیں۔ محمد بن سلمان کی گرفت سعودی نظام پر مضبوط ہے، محمد بن نائف کو ولی عہد کی جگہ لانے کی سوچ اور بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایسے اشارے سعودی عرب میں نئے کریک ڈاؤن کو جنم دیں گے اور شاہی خاندان کے اندر بغاوت کچلنے کی ایک بڑی مہم پہلے ہی انجام دی جا چکی ہے، دوبارہ ایسی کوئی مہم حالات کو مزید خطرناک بنا دے گی، یعنی سعودی عرب میں کسی بھی طرح کا عدم استحکام خود امریکی مفاد میں بھی نہیں ہوگا۔ اگر بائیڈن کے دورِ صدارت میں ہی محمد بن سلمان بادشاہ بنتے ہیں، جس کے امکانات موجود ہیں، تو امریکا اور سعودی عرب تعلقات میں تلخیاں مزید بڑھیں گی۔

اگر بائیڈن انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ شہزادے کو بے توقیر کرنے سے سعودی عرب میں کوئی بغاوت زور پکڑے گی اور وائٹ ہاؤس کا دباؤ شہزادے کو شاہ ایران کی طرح تخت چھوڑ کر نکلنے پر مجبور کردے گا تو ایسا بھی شاید نہ ہو، ہاں اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شاہ ایران کے خلاف تحریک کی حمایت کرکے ایران میں نتیجہ کیا نکلا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ جمی کارٹر کی غلطی کو دہرانے سے اجتناب کرے تو یہی امریکا کے حق میں بہتر ہوگا۔ بائیڈن کا موجودہ دباؤ ایسے غیر ارادی نتائج کو جنم دے سکتا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اب تک کے اشارے ایران کو شے دے رہے ہیں اور اس کا نتیجہ 24 گھنٹوں میں ایران کی کارروائیوں کی صورت سامنے آرہا ہے۔ ایران نواز گروہوں نے عراق میں امریکی فورسز پر راکٹ برسائے، اسرائیلی بحری جہاز پر میزائل سے حملہ کیا اور سعودی دارالحکومت ریاض پر ڈرون اور میزائل کی صورت میں آگ برسائی۔

کئی عشروں کی پابندیوں کے باوجود مشرق وسطیٰ میں ایران کو پراکسی ملیشیاز کی وجہ سے حریف عرب ملکوں پر بالادستی حاصل ہے۔ ایران نے لبنان، شام، عراق اور یمن میں جنگجو گروہوں کی مدد سے سعودی عرب کا گھیراؤ کر رکھا ہے۔ بائیڈن نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی مدد ختم کرنے کا اعلان کیا اور حوثی باغیوں کو دہشتگرد قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا، اس سے ایران کو فائدہ پہنچا اور حوثیوں کے حوصلے بلند ہوئے یوں سعودی عرب پر حملے بڑھ گئے۔

ان حالات میں سعودی عرب کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ امریکا پر انحصار ختم کرکے نئے دوست تلاش کرے اور یہ کام شروع بھی ہوچکا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل، سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل 4 ملکی مشترکہ دفاعی اتحاد پر مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔

یہ مذاکرات بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایرانی جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے کی طرف واپسی کے اعلانات کے بعد شروع ہوئے۔ سعودی عرب دفاع کے لیے روس اور چین کے دروازے بھی کھٹکھٹا سکتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ مزید قربت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے کیونکہ دونوں ملک ایران کے جوہری پروگرام کو یکساں خطرہ تصور کرتے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے حوالے سے ایک حد سے آگے جانے کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ سعودی عرب ناصرف تیل کی منڈی میں استحکام کا ضامن ہے بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں کو مدد فراہم کرکے علاقائی استحکام کو بھی یقینی بنانے میں مدد دیتا ہے۔

حالیہ اسرائیل عرب تعلقات کی بحالی کے لیے معاہدات ابراہیمی میں سعودی عرب نے پس پردہ رہ کر اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات بائیڈن انتظامیہ سے ڈھکی چھپی نہیں اسی لیے آئندہ کے اقدامات سعودی عرب یا ولی عہد کو کچھ معاملات میں محدود تو کرسکتے ہیں لیکن تعلقات ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

صدر بائیڈن کی شاہ سلمان کو کی گئی فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کا اعلامیہ ایک بار پھر غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے جس میں کہا گیا کہ صدر بائیڈن نے تعلقات کی تاریخی نوعیت کو نوٹ کیا، گرفتار سعودی سماجی کارکن کی رہائی کا خیر مقدم کیا اور سعودی عرب کے دفاع میں مدد کا وعدہ کیا۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔