نقطہ نظر

چین کی بڑھتی دلچسپی سے پاکستانی ماہی گیر خوفزدہ کیوں؟

’مقامی لوگوں کے لیے شاید ہی کوئی مچھلی بچی ہے، ہمارے پانیوں میں چینیوں کو کس طرح اور کیوں مچھلی پکڑنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔‘
|

بحیرہ عرب پر واقع شہر گوادر کے ماہی گیر پاکستانی فشریز سیکٹر میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے خوفزدہ ہیں۔

چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے وسط میں تجارتی مرکز کی حیثیت رکھنے والے اس ضلع کے مقامی رہنما حاجی خداداد واجو نے کہا ’اگر اس کا مطلب ہے کہ ان کے ٹرالر ہمارے مچھلی کے ذخیرے ہڑپ کرجائیں گے تو ہمیں چینیوں سے کوئی سرمایہ کاری یا مدد نہیں چا ہیے‘۔

واجو کی طرح، پاکستان کی 990 کلومیٹر ساحلی پٹی پر رہنے والے متعدد ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے والے مقامی اور غیر ملکی جہازوں کے تباہ کن اثرات نے بدحال کردیا ہے، کیونکہ یہ ’مچھلیوں کی نسل کشی کا سبب ہیں‘۔

گزشتہ سال کے اختتام پر ایک اعلیٰ چینی سفارتکار نے پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ عندیہ دیا کہ چین پاکستان میں ماہی گیری کی مقامی صنعت کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

قونصل جنرل لی بیجیان نے کہا کہ ’جب آپ ماہی گیری کی بات کرتے ہیں تو آپ (پاکستان) کے پاس بے شمار وسائل موجود ہیں۔ چینی سرمایہ کار پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں‘۔

انہوں نے گوادر میں ماہی گیروں کے لیے بڑی کشتیاں اور ماہی گیری کے جدید آلات کی بات کی اور کہا کہ پروسیسنگ فیکٹریاں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ’سی فوڈ برآمد کرنے کے لیے مقامی ماہی گیروں کو اپنی ماہی گیری کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'مقامی افراد کو ماہی گیری کے لیے گہرے سمندر میں جانے کی ضرورت ہے کیونکہ سمندر کے کنارے ’ماہی گیری منافع بخش نہیں‘۔

مچھلیوں کے ذخائر پہلے ہی ختم ہونے کو ہیں

اس اعلان نے سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں ماہی گیروں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے، جہاں مچھلی پکڑنے والوں کی کم از کم 7 لاکھ کی آبادی تیزی سے ختم ہوتے مچھلی کے وسائل کی وجہ سے زندہ رہنے کی جدوجہد کررہی ہے۔

2015ء میں اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے پاکستان کے ماہی گیروں کے بارے میں ایک تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان میں مچھلی پکڑنے کا پائیدار طریقہ استعمال نہیں ہورہا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پاکستان کے سمندری وسائل بے دریغ استعمال ہورہے ہیں اور صورتحال ’ماحولیاتی تباہی‘ کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اگرچہ لی بیجان نے ماحولیاتی نظام کے تحفظ کی بات کی تھی، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ چین سمندری حیات اور بلوچستان میں مقامی ماہی گیروں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کرے گا۔

چین کی بڑھتی ہوئی طلب

ملک میں سمندری غذا کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ ساتھ چین ماہی گیری کی سب سے بڑی صنعت بھی ہے۔ برطانیہ کے اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (او ڈی آئی) کے مطابق گہرے پانیوں میں مچھلی پکڑنے والا چینی بیڑا 17 ہزار جہازوں پر مشتمل ہے، جو کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

بین الاقوامی تحقیقات نے چینی ٹرالروں کی جانب سے اپنائے جانے والے ماہی گیری کے تباہ کن طریقوں کو متعدد ممالک میں مچھلیوں کے ذخائر ختم ہوجانے کا سبب ٹھہرایا ہے۔

اسٹاک ہوم یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2030ء تک، چین کو متوقع گھریلو استعمال کو پورا کرنے کے لیے 18 ملین ٹن اضافی سمندری غذا کی ضرورت ہوگی اور یہ ضرورت وہ دُور دراز پانیوں میں ماہی گیری کے آپریشنز کو بڑھا کر پورا کرے گا۔

ممکنہ احتجاج

پاکستانی ماہی گیر کئی دہائیوں سے گہرے سمندر میں شکار پر احتجاج کرتے آئے ہیں اور حالیہ برسوں میں ان کے مچھلی پکڑنے میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔

گوادر میں چین نے سی پیک منصوبوں کے ذریعے اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے، یہاں کی بندرگاہ کو چین کے تجارتی عزائم کا راستہ بتایا جاتا ہے۔ ان ترقیاتی کاموں کی وجہ سے مقامی افراد پہلے ہی بے گھر ہوچکے ہیں۔

فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کے سعید بلوچ نے کہا کہ ’ہم ان ٹرالروں کے مکمل خلاف ہیں۔ وہ مچھلی کے ذخائر ختم کردیں گے اور ہمیں تباہ کردیں گے‘۔ انہوں نے مزید کہا ’کراچی بندرگاہ پر پہلے ہی 12 چینی ٹرالر موجود ہیں اور ہمیں آگاہ کیا گیا ہے کہ مستقبل میں 60 مزید ٹرالر آئیں گے۔ اگر انہیں مچھلی پکڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو بدترین صورتحال پیدا ہوجائے گی‘۔

کراچی کی بندرگاہ پر مچھلی پکڑنے والے چینی ٹرالروں کی موجودگی کے بارے میں بلوچ ماہی گیروں کے خدشات کا بہت سے دیگر ماہی گیروں نے بھی اظہار کیا ہے۔

اکتوبر 2020ء میں ان جہازوں کی آمد نے احتجاج کو جنم دیا تھا کیونکہ مقامی ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ وفاقی حکومت خفیہ طور پر ان پانیوں میں چینی جہازوں کو مچھلی پکڑنے کی اجازت دے رہی ہے۔ چونکہ حکومت کی طرف سے ان ٹرالروں کو ماہی گیری کے لائسنس نہ دینے کا ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا، لہٰذا ماہی گیروں کو بدترین صورتحال کا اندیشہ ہے۔

ماہی گیری کے حوالے سے پالیسی؟

وفاقی حکومت نے 2018ء میں ان امور کو منظم کرنے کے لیے گہرے سمندر میں کی جانے والی ماہی گیری کی پالیسی بنائی تھی، لیکن اسے ماہی گیروں اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے لیے سمندری ماہی گیری کے مشیر معظم خان نے کہا کہ 2018ء کی پالیسی ملک کے ایکسکلوزو اکنامک زون (ای ای زیڈ) کے انتظامات کے لیے بنائی گئی تھی۔ ’2018ء کی پالیسی اسی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی کہ ای ای زیڈ ماہی گیری کا انتظام کیا جائے لیکن ماہی گیروں نے سماجی و معاشی نتائج کی بنا پر اس کی مزاحمت کی۔ ہم اپنی ماہی گیری میں ترمیم کرسکتے ہیں اور کرنا چاہیے لیکن اچانک یہ کرنا ہزاروں لوگوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ مثال کے طور پر، گل نیٹ پریکٹس کو ختم کرنا ضروری ہے لیکن بغیر کسی متبادل کے ماہی گیر کیا کریں گے؟‘

معظم خان نے چینیوں کے بڑے جہازوں کی آمد سے متعلق کہا کہ اس کا نتیجہ ’ماہی گیروں کا خاتمہ‘ ہوگا۔ ’یہ جہاز مقامی ماہی گیروں کے ساتھ مقابلہ کریں گے اور ماہی گیر یہ مقابلہ نہیں کرسکتے‘۔

معظم خان نے سوال کیا کہ ’مقامی لوگوں کے لیے شاید ہی کوئی مچھلی بچی ہے، ادھر ہمارے پانیوں میں چینیوں کو کس طرح اور کیوں مچھلی پکڑنے کی اجازت دی جا رہی ہے؟‘ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں مچھلی پکڑنے کے تقریباً ڈھائی ہزار ٹرالر ہیں اور یہ تعداد گنجائش سے 4 گنا زیادہ ہے۔

چینی ٹرالر

پی ایف ایف کے نمائندے سعید بلوچ نے کہا کہ کراچی کی بندرگاہ پر چینی ٹرالروں کی موجودگی ’وفاقی حکومت کی جانب سے ایک سازش ہے جو پہلے سے پریشان ماہی گیر برادری کو مزید دیوار سے لگا دے گی‘۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس سے ’واضح طور پر‘ اس بات کی نشاندہی ہورہی ہے کہ وفاقی حکومت آنے والے دنوں میں چینی ٹرالروں کو لائسنس دینے جارہی ہے۔

سمندری امور کے وزیر نے کہا ہے کہ وہ جیٹی پر مذکورہ ٹرالروں کی آمد سے لاعلم تھے‘۔ سعید بلوچ کا کہنا ہے کہ ’یہ کیسے ممکن ہے؟ وفاقی حکومت نے جان بوجھ کر انہیں [یہاں] آنے کی اجازت دی ہے تاکہ لائسنس دیے جاسکیں‘۔

سعید بلوچ نے کہا کہ اگر غیر ملکی ٹرالروں کو مچھلی پکڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ سمندری حیات کو ختم کردیں گے اور سندھ سے ٹرالروں کی آمد پر سندھ اور بلوچستان کے مابین تنازعات میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم مکمل طور پر بلوچستان میں مقامی اور غیر ملکی ٹرالروں کے خلاف ہیں۔ کراچی میں چینی جہازوں کی موجودگی کے خلاف سیکڑوں ماہی گیر سڑکوں پر نکل آئے‘۔

معظم خان نے کہا کہ ’چینی پاکستان کے پانیوں میں مچھلی پکڑنے کے خواہشمند ہیں کیونکہ وہ بغیر ڈیوٹی دیے شکار کو اپنے ملک بھیج سکتے ہیں۔ اگر کوئی چینی جہاز یہاں مچھلی پکڑنے کے لیے آتا ہے تو درآمد شدہ مچھلی ڈیوٹی فری ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر چینی جہاز بندرگاہ پرموجود ہیں، تو ان کا نام بحر ہند میں مچھلی پکڑنے اور اسے بغیر ڈیوٹی کے فروخت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ماحول کے لیے تباہ کن ماہی گیری

ٹرالر بھاری وزن کے ساتھ بڑے جال استعمال کرتے ہیں جو اپنے راستے میں ہر چیز کو اکٹھا کرنے کے لیے سمندری فرش پر گھسیٹے جاتے ہیں۔ اس طریقے کو انتہائی نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے۔

ماہی گیر الیاس بنگالی، جو مچھر کالونی کراچی کے رہائشی ہیں اور کئی سالوں سے سندھ اور بلوچستان کے گہرے سمندر میں ماہی گیری کررہے ہیں، انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ’یہ ٹرالر مچھلی پکڑنے کے لیے باریک بنے ہوئے جال رکھتے ہیں۔ چھوٹی، بڑی مچھلی اور انڈوں کے ساتھ یہ تمام آبی حیات کا صفایا کررہے ہیں۔ مچھلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے، اب ہم اپنی چھوٹی کشتیوں میں مچھلی پکڑنے کے لیے بلوچستان جانے پر مجبور ہیں‘۔

الیاس بنگالی نے بتایا کہ بہت سارے مقامی ٹرالر غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑ رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پریشانیوں میں پچھلے سال سندھ کے ساحلی علاقے میں چینی ٹرالروں کی آمد سے اضافہ ہوا ہے۔

گوادر میں ماہی گیروں کے ساتھ کافی وقت گزارنے والے ماہر بشریات حفیظ جمالی نے کہا، ’1990ء کی دہائی سے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں گہرے سمندر میں ٹرالنگ ہو رہی ہے۔ نگرانی کے مناسب نظام کے بغیر، ٹرالروں نے انڈس ڈیلٹا میں فشریز کے ذخیرے کو کافی حد تک ختم کردیا ہے۔ آج، وہ مایوسی کے مارے وقتاً فوقتاً مکران کے ساحلی علاقے میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، کیونکہ سندھ میں ان کے پاس ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں‘۔

حفیظ جمالی کہتے ہیں کہ ’جب ان کے جہاز چلتے ہیں تو جال سمندری سطح پر جھاڑو سی دیتے ہیں، اور اس عمل میں ہر جاندار کو جال میں لپیٹ لیتے ہیں، چاہے اس کی ضرورت ہو یا نہیں۔ جب جال کو جہاز پر لایا جاتا ہے تو، قیمتی مچھلیاں نکال لی جاتی ہیں اور باقی انڈے اور مردہ مچھلی باہر پھینک دی جاتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’گہرے پانی کی ٹرالنگ ماحولیاتی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے حد سے زیادہ مچھلی کا شکار ہوتا ہے اور بیک وقت سمندری افزائش گاہیں بھی تباہ ہوجاتی ہیں۔ جبکہ ماہی گیری کا قانون ٹرالروں کو 12 سمندری میل کے فاصلے پر کام کرنے سے منع کرتا ہے‘۔ حفیظ جمالی نے کہا کہ ’قیمتی تجارتی مچھلیوں کے لالچ میں انہیں قانون کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘۔

ماہی گیروں کے بہتر حقوق کے حامی، کے بی فراق کہتے ہیں کہ بلوچستان کے پانیوں میں غیر قانونی ٹرالنگ ایک پرانا رجحان ہے۔ ’یہ کام کوئی 1970ء سے چل رہا ہے۔ حال ہی میں جب میں گوادر ضلع میں جیوانی گیا تو مجھے ساحل کے قریب پانی میں ٹرالر نظر آیا، وہ آرام سے کارروائی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مچھلیوں کی نسل کشی ہوتی ہے‘۔

فراق کہتے ہیں کہ ’اگرچہ بلوچستان میں یہ کام غیر قانونی ہے لیکن یہ ٹرالر کوئی نہ کوئی انتظام کرلیتے ہیں کیونکہ ان کے مالکان کا ’حکام کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے‘۔

وزیرِ اعلی بلوچستان کے مشیر، محمد اکبر عسکانی نے اس مسئلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے گوادر ضلع کے ایک قصبے جیوانی میں محکمہ فشریز کے 12 عہدیداروں کو معطل کردیا ہے، جو غیر قانونی طور پر ٹرالروں کو مچھلی پکڑنے کی اجازت دینے میں ملوث تھے‘۔

اکبر عسکانی بتاتے ہیں کہ ’بعض اوقات، خاص طور پر رات کے اندھیرے میں، یہ (زون 3 کے ٹرالر) ہمارے پانی (زون 1) میں گھس جاتے ہیں۔ ہم انہیں پکڑتے ہیں لیکن بعض اوقات، ان کے حجم اور عملے کی تعداد کی وجہ سے وہ ہمارے لوگوں کو شدید زخمی کردیتے ہیں‘۔

کراچی میں مقیم ماہی گیروں کے حقوق پر لکھنے والے ایک کارکن عزیز سنگھور نے کہا کہ ’کراچی میں بااثر اور دولت مند لوگ ان ٹرالروں کے مالک ہیں۔ سندھ کے پانیوں میں مچھلی کی کمی کی وجہ سے یہ ٹرالر گہرے سمندر میں ماہی گیری کے لیے بلوچستان کے پانیوں میں جاتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ٹرالنگ کو روکنے کے بجائے، ایسا لگتا ہے کہ اس کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ’اس سے ناصرف ماہی گیروں اور ماحولیات بلکہ پاکستان میں مچھلی کی برآمد کو بھی سنگین نتائج کا سامنا ہوگا‘۔

گھٹتی ہوئی آمدنی

گوادر میں پسنی پورٹ جیٹی پر، ماہی گیر نسیم بلوچ نے بتایا کہ وہ لوگ بمشکل گزارا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں جب ہم سمندر میں جاتے تو ہم میں سے ہر ایک 15 سے 20 ہزار روپے (93 سے 125 امریکی ڈالر) مچھلی کی فروخت سے حاصل کرتا تھا۔ آج یہ آمدنی کم ہوکر 5 سے 10 ہزار روپے (30 سے 62 امریکی ڈالر) رہ گئی ہے۔ کبھی کبھی یہ 4 ہزار روپے (25 امریکی ڈالر) تک گھٹ جاتی ہے۔ ہم بڑی مشکل سے گزارہ کررہے ہیں‘۔

یہ خطرہ نیا نہیں ہے۔ 18 سال پہلے ایکشن ایڈ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان کے ماہی گیر بھوکے سوتے ہیں کیونکہ ملک میں تجارت اور برآمدات میں ترقی کے نتیجے میں بڑے ٹرالر ماہی گیری پر قابض ہورہے ہیں‘۔

پاکستان کی ماہی گیری میں چین کی دلچسپی

پاکستان کے ماہی گیری کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری سے متعلق منصوبوں کے حوالے سے ماہرین متفق نہیں ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معظم خان نے کہا کہ ’وہ کس وسعت کی بات کر رہے ہیں؟ ہمیں اپنی ماہی گیری کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ہم یہ کرنے کے بعد ہی دوسروں کو مدعو کرسکتے ہیں‘۔

اگر آبی حیات کے ذخائر میں ازسرِ نو اضافہ بھی ہوجائے تو معظم خان کو لگتا ہے کہ ماہی گیری چینیوں کے ذریعہ نہیں کی جانی چاہیے، بلکہ مقامی لوگوں کو موقع دیا جانا چاہیے تاکہ انہیں غربت سے نکالا جاسکے۔

’اسکویڈ کے علاوہ، جسے پاکستان نہ ہی پکڑتا ہے اور نہ ہی مارکیٹ کرتا ہے، ان چینی جہازوں کی ہمارے پانیوں میں ماہی گیری کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘۔ معظم خان نے مزید کہا کہ ایک چینی جہاز پاکستانی جہاز سے 10 گنا زیادہ مچھلی پکڑ سکتا ہے۔

جب لی بیجیان کے پائیدار ماہی گیری، ماہی گیروں کی تربیت اور پروسیسنگ پلانٹوں کے ذکر کے بارے میں پوچھا گیا تو معظم خان نے کہا کہ ’یہ منہ زبانی باتیں ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے ان ماہی گیروں کو تربیت کی ضرورت ہے؟ پراسیسنگ پلانٹ بنا خام مال کے کیسے چلیں گے؟ یہ پیشکشں اپنے سمندری جہازوں کی اجازت حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے‘۔

آئی یو سی این کے مطابق پاکستان کی ماہی گیری صنعت کو کچھ اہم امور کو حل کرنے سے فائدہ ہوگا، ان میں ایک خاص حد سے زیادہ مچھلی پکڑنا، باریک جالوں کا استعمال، کشتیوں اور ٹرالروں کی زیادہ تعداد، مینگروو میں ہونے والی کمی اور ساحلی ماہی گیری کےعلاقوں کی آلودگی شامل ہیں۔

مقامی افراد سے کوئی مشاورت نہیں گئی

حاجی واجو نے کہا کہ ان کی برادری کو ترقی سے متعلق منصوبے میں سرے سے شامل ہی نہیں کیا گیا۔ ’گوادر کے سب سے قدیم باشندے ہونے کے باوجود اس عمل میں ہم سے کوئی رائے نہیں لی گئی ہے‘۔

ان کے احتجاج کی وجہ سے انہیں چین سے امداد ملی جس میں 15 بوٹ انجن اور سولر پینل شامل تھے۔ لیکن ان کے نزدیک یہ ’سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے۔ ہمیں تربیت یافتہ، تعلیم یافتہ اور ماہی گیری کے جدید آلات سے آراستہ ہونا چاہیے۔ میری برادری ان پڑھ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے نہیں کر سکتے‘۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

محمد اکبر نوتزئی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
عاتکہ رحمان

عاتکہ رحمان ڈان ڈاٹ کام کی مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔

وہ ٹوئٹر پر AtikaRehman@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔