مودی ازم: بولی وڈ کے سیکولر امیج کی موت
سپنوں کی دنیا جسے ہم بولی وڈ کے نام سے جانتے ہیں، اپنے اندر بے انت داستانیں سموئے ہوئے ہے۔ ان میں سے بیشتر تلخ کامیابیوں کی جڑوں میں ہزاروں ناکامیاں، رنگوں کے سیاہ پس منظر، خوشیوں کے پیچھے غم، جشن کے پہلو میں اسکینڈلز اور بلاک بسٹرز کی تہہ میں خودکشیاں ہوتی ہیں۔
رنگوں کی یہ دنیا اتنی رنگین اور اتنی حسین نہیں صاحب۔ یہ اتنی لطیف نہیں، مگر یہ ایک عشق ہے۔ ہندوستان کی عالمی دنیا میں شناخت، ایسی شناخت، جس کی وجہ سے وہاں کی غربت، بدعنوانی یہاں تک کہ عرصے سے جاری اقلیتوں کا استحصال بھی اور مقبوضہ کشمیر کے مظالم بھی، ایک دبیز پردے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
ان رنگوں کے پیچھے کرب ہے۔ مگر بولی وڈ نے دنیا کے سامنے ہندوستان کی ایک ایسی تصویر پیش کی، جو ستھری نکھری، اجلی اجلی تھی۔ یہ چمکتی دمکتی، محبت سے لبریز، دلکش، انگیخت کرنے والی، گرویدہ بنا لینے والی تصویر تھی۔
دلیپ کمار سے بگ بی تک اور بگ بی سے خانز تک بولی وڈ نے محبت سے مہکتی، ایکشن سے بھرپور، ہنساتی، رُلاتی ایسی باکمال فلمیں پیش کیں جو ناصرف ہمارے ذہنوں میں رچ بس گئیں بلکہ تاریخ کا حصہ بن گئیں۔
البتہ ایک پہلو ایسا ضرور تھا جو بہرحال قابلِ تعریف تھا، اور وہ تھا بولی وڈ کا سیکولر امیج۔
ہندوستان کا کلاسیکی سینما بلاشبہ سیکولر سوچ کا حامل تھا۔ وی شانتا رام، محبوب خان، راج کپور، بمل رائے، گرودت جیسے ہدایت کار فکری طور پر اسی سوچ کے حامل تھے۔ اندرا گاندھی کے دور میں بھی سینما کا امیج سیکولر ہی رہا، لیکن ان کی جارحانہ پالیسیوں نے اینگری ینگ مین کو پیدا کیا۔ یوں قوم پرستی کی شروعات شاستری دور میں ہوئی۔
چند ناقدین کے مطابق 70ء کی دہائی کے بعد اس سیکولر امیج کو مخصوص مقاصد کے پیش نظر پروان چڑھایا گیا۔ یہ عمل انتہا پسندی میں مبتلا ہندو اکثریتی ملک کی امیج بلڈنگ کی منظم کوشش تھی اور اس میں بولی وڈ ایک حد تک کامیاب بھی رہا، گویا اپنے ہاں کی ’سرخی‘ پر بھائی چارے کا میک اپ تھوپ کر، اسے قابلِ قبول صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
مودی جی کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی قوم پرستی اور ہندو برتری پر مبنی فلمیں بنیں۔ نرسہما راؤ کے دور میں سینما پر ہندوتوا کے اثرات بڑھنے لگے۔ 90ء کی دہائی میں سبھاش گھئی، سورج برجاتیہ اور منی رتنم کی فلموں میں تبدیل ہوتا ہندوستان نظر آنے گا۔ البتہ اصل سانحہ مودی کی آمد کے بعد ہی رونما ہوا۔
اس سے قبل تک دیپا مہتا کے متوازی سینما سے کرن جوہر کے پاپولر سینما تک، زیادہ تر کام سیکولر فکر کے گرد ہی گھومتا تھا۔ کبھی کبھی تو کمرشل فلموں کے پیکٹ میں ’بجرنگی بھائی جان‘ اور ’ویرزارا‘ جیسی فلمیں بھی پیش کی گئیں، جنہوں نے کلی غیر جانب داری تو نہیں برتی مگر پاکستان کو نسبتاً مثبت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔
مگر گجرات کے قصائی کے طور پر شہرت رکھنے والے نریندر مودی کی منظر میں آمد کے بعد حالات میں بڑی تبدیلی آئی۔ پاکستانی فنکاروں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے عمل پر، جس کا مقصد پاکستانی ٹیلنٹ کو پرموٹ کرنا نہیں بلکہ اپنی فلموں کو اداکاری اور موسیقی کے نقطہ نگاہ سے بہتر بنانا تھا، ضرب لگی۔
اس مختصر جائزے کو ہم 5 مراحل میں تقسیم کرتے ہیں، گو ان میں سے بیشتر بیک وقت رونما ہوئے۔
عدم برداشت کی ابتدا
ابھی مودی جی تازہ تازہ آئے تھے اور قوم پرستی کی لہر اٹھ رہی تھی, ایسے میں شاہ رخ کو اپنی ملٹی اسٹارر فلم ’دل والے‘ کی ریلیز سے پہلے ’عدم برداشت‘ سے متعلق دیا جانے والا تبصرہ اتنا مہنگا پڑا کہ فلم کا بھٹا ہی بیٹھ گیا۔ فلم کو ریلیز کے موقعے پر شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور خان مخالف لہر نے فلم کو ہزاروں ناظرین سے محروم کردیا۔
عامر خان کو بھی بڑھتی عدم برداشت پر اپنے مؤقف کی وجہ سے شدید تنقید سہنی پڑی۔ ان کے ہندوستان چھوڑنے کے بیان پر بہت لے دے ہوئی۔ گو فلم ’دنگل‘ اس قوم پرستانہ لہر کو سہہ گئی مگر اگلی فلم ’ٹھگز آف ہندوستان‘ کے آتے آتے حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ یہ میگا بجٹ فلم 3 دن میں باکس آف پر ڈھیر ہوگئی۔
معیار کا ڈھکوسلا
گو یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ Content ہی اصل بادشاہ ہے، اور خانز کی حالیہ ناکامیوں کے پیچھے کمزور اسکرپٹ تھا، مگر سچ تو یہ ہے کہ ایک عرصے تک انڈسٹری پر راج کرنے والے خانز کے خلاف ایک خاموش محاذ بن چکا تھا، جس میں قوم پرست نظریات نے تیل کا کام کیا۔ اجے دیوگن اور اکشے کمار جیسے اداکار، جو کبھی باکس آفس پر خانز کے حریف نہیں رہے تھے، یکدم نمایاں ہوکر سامنے آنے لگے۔
اس ضمن میں ٹوئیٹر پر موجود فلم ناقدین خوب کام آئے۔ بڑے بڑے فلمی پنڈتوں نے ہندوتوا کے سامنے گھٹنے ٹھیک دیے۔ رہی سہی کسر نام نہاد مبصرین نے پوری کردی، جن میں سے چند بھاڑے کے خچر تھے، اور چند پروپیگنڈے کا شکار۔
چلن یہ ٹھہرا کہ فلم کی ریلیز کے 2 گھنٹے بعد ہی ٹوئیٹر پر اس کی کامیابی یا ناکامی کا اعلان کردیا جاتا۔ ان ٹوئیٹس سے ایک رجحان جنم لیتا جو فلم کی قسمت کا فیصلہ صادر کرتا۔ جلد ہی اکشے اور اجے کی 100 کروڑ کلب کی فلمیں بلاک بسٹر ٹھہرائی جانے لگیں، جبکہ خانز کی فلمیں اوسط قرار پاتیں۔
گو سلمان خان نے خود کو ہمیشہ مودی جی کے قریب ظاہر کیا، اور بھارتی وزیرِاعظم کے ساتھ ان کی پتنگ بازی کی تصاویر خاصی وائرل ہوئیں، مگر انہیں بھی ناکام فلموں کا ذائقہ چکھنے کے بعد اپنے ’اسٹارڈم‘ میں پڑنے والی دراڑ کا ادراک ہوگیا۔ حالات ایسے بدلے کہ خانز کی فلموں کی سولو ریلیز مشکل میں پڑگئی اور یہ صورتحال تاحال برقرار ہے۔
بے بس پرڈوکشن ہاوسز
یہ تو ہوا خانز کا معاملہ۔ دوسری ضرب بڑے پروڈکشن ہاوسز پر پڑی جنہوں نے ہمیشہ خود کو سب سے بالا تصور کیا تھا۔ قوم پرستی کی یہ ضرب اتنی شدید تھی کہ بڑے بڑے بینر اس کی تاب نہ لاسکے۔
کرن جوہر کو اپنی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ میں ناصرف فواد خان کا رول مختصر کرنا پڑا، بلکہ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ حکومت کی جانب سے اجازت دیے جانے تک وہ پاکستانی فنکاروں کو کاسٹ کرنے سے اجنتاب کریں گے۔
ماہرہ خان کو لے کر بنائی جانے والی ’رئیس‘ کو ریلیز کی وقت مشکلات کا سامنا تھا۔ آخر شاہ رخ خان کو فلم کے پروڈیوسر کے ساتھ شیو سینا کے سربراہ کے در پر حاضری دینی پڑی۔ ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ البتہ اجے دیوگن نے سہولت سے اپنی فلم میں نصرت فتح علی خان کی قوالی شامل کی اور اس کا جواز بھی گھڑ لیا۔
بولی وڈ نہیں، ہندوستانی سینما
تیسرا مرحلہ، ہندوستانی سینما کا ظہور تھا۔ یہ سچ ہے کہ ساؤتھ کا سینما چاہے تامل سینما ہو یا تیلگو، ہمیشہ بے حد مضبوط رہا اور ایک عرصے سے بولی وڈ وہاں کی مسالا فلموں کا ’ری میک‘ بنا رہا تھا مگر راجا مولے کی فلم ’باہو بلی‘ کی تاریخ ساز کامیابی کے بعد یکدم بولی وڈ عالمی سینما میں بھارت کے اکلوتے ترجمان کی حیثیت کھو بیٹھا۔
راجا مولے ایک پان انڈیا ڈائریکٹر اور پربھاس پہلے پان انڈین سپر اسٹار کے طور پر ابھرے۔ رجنی کانت کی 2.0 (ربووٹ 2) کی ریلیز اور کامیابی نے بھی اس عمل کی توسیع کی اور یش کی فلم KGF نے اس تصور پر تصدیق کی مہر ثبت کردی کہ اب اس دوڑ میں بولی وڈ اکیلا نہیں، اس کے حریف اس سے زیادہ مضبوط ہیں، اور خود ہندی سرکٹ کے لیے ان کی فلمیں حیران کن کشش رکھتی ہیں۔ (باہو بلی 2 کا بزنس ہندی سرکٹ میں، ہندی کی سب سے کامیاب فلم ’دنگل‘ سے ڈیڑھ سو کروڑ زیادہ ہے)۔
نئے ہیرو کا ظہور
چوتھا مرحلہ اس نئے ہندی سینما کے، جو اب بولی وڈ سے بڑی اصطلاح بن چکی ہے، مرکزی حیثیت حاصل کرنے یا Protagonist کا روپ بدلنے کا تھا۔ ایک قوم پرست Protagonist ابھرا جو بولی وڈ کے سابق ہیروز (جیسے خانز) کے برعکس فلم میں اپنی سیاسی اور مذہبی شناخت کو چھپانے کے بجائے اس کا اظہار کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ ’پی کے‘ کے غیر مذہبی بیانیے کے سامنے ’باہو بلی‘ کی شکل میں ایک مذہبی بیانیہ جنم لے چکا تھا۔
مودی جی کی اپنی ’گڈ بک‘ میں موجود فنکاروں کے ساتھ سیلفیاں تیزی سے وائرل ہوئیں، خانز کی فلمیں ناکام ہونے لگیں، حب الوطنی اور قوم پرستی پر مبنی فلموں کی اٹھان حیران کن تھی، جلد ہی بولی وڈ کے سیکولرازم پر ہندوتوا کا رنگ غالب آنے لگا۔ روشن خیال فلم ساز OTT تک محدود ہوگئے، اور مرکزی دھارے میں معتوب ٹھہرائے جانے لگے۔
صورتحال اتنی گمبھیر ہوگئی کہ متنازع معاملات میں اپنی آواز اٹھانے والے فنکار خاموش ہوئے۔ غیر جانبداری کے بجائے مودی بیانیے کی حمایت کا چلن جنم لینے لگا، جس کی انتہائی شکل اکشے کمار کی جانب سے رام مندر کے لیے چندہ دینے کے اعلان کی صورت سامنے آئی (ویسے الیکشن سے قبل ان کا مودی جی کے ساتھ ’فکسڈ‘ انٹرویو بھی ہمیں خوب یاد ہے)۔
2019ء آتے آتے بولی وڈ یکسر بدل چکا تھا۔ مغلوں کو بدیسی قرار دینے کی مہم نے زور پکڑا۔ چھوٹے پردے پر پرتھوی راج چوہان، اکبر پر غالب آیا، بڑے پردے پر خلجی اور ابدالی جیسے بادشاہوں کے کرداروں کو مسخ کیا جانے لگا۔ تاریخی شکستوں میں بلاک بسٹرز کا فارمولا تلاش کیا گیا جبکہ شکست کھانے والے ہندو راجا مہاراجاؤں کو فاتحین کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
پربھاس اور سیف علی خان کی فلم آدی پُرش، جو شری رام چند کے جیون کے گرد گھومتی ہے، اس بدلتے سینما کی انتہائی شکل ہے۔ Om Raut کی اس فلم کے اعلان کا قوم پرستوں میں باقاعدہ جشن منایا گیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ کورونا بحران کے بعد سامنے آنے والا بولی وڈ کیا اس قوم پرستانہ نظریاتی بحران سے نکل سکے گا یا عامر خان اور شاہ رخ خان کی مودی جی کے ساتھ سیلفیاں اس تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گی۔
اقبال خورشید کالم نویس، انٹرویو کار، فکشن نگار اور بلاگر ہیں۔ وہ ’ون منٹ اسٹوری‘ کے عنوان سے صحافتی کہانیاں لکھتے ہیں، ایک ادبی جریدے’ اجرا‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، سماج، ادب اور شہر کراچی اُن کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔