صحت

کورونا کی جنوبی افریقی قسم سے فائزر ویکسین کے حفاظتی اثر میں کمی کا انکشاف

جنوبی افریقی قسم کووڈ سے ویکسین کے استعمال کے بعد تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں دوتہائی حد تک کم کرسکتی ہے۔

حال ہی میں دریافت کیا گیا تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور ایسٹرا زینیکا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کورونا وائرس کی جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم کے خلاف بہت کم مؤثر ہے۔

اب انکشاف ہوا ہے کہ فائزر/بائیو این ٹیک کی کووڈ ویکسین کے خلاف بھی یہ نئی قسم حفاظتی اینٹی باڈیز کا اثر نمایاں حد تک کم کردیتی ہے۔

ایک لیبارٹری تحقیق میں یہ عندیہ ملا کہ جنوبی افریقی قسم کووڈ سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں دوتہائی حد تک کم کرسکتی ہے اور یہ واضح نہیں کہ یہ ویکسین اس نئی قسم کے خلاف کس حد کو مؤثر ہے۔

دونوں کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے باوجود یہ وائرس وائرس کو ناکارہ بناسکتی ہے اور اب تک ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ کورونا کی اس نئی قسم سے لوگوں کو ویکسین سے ملنے والا تحفظ گھٹ جاتا ہے۔

کمپنیوں کا کہنا تھا کہ وہ سرمایہ کاری اور کے ساتھ ریگولیٹرز سے اس ویکسین کے اپ ڈیٹ ورژن یا بوسٹر شاٹ کی تیاری پر بات کررہی ہیں۔

اس تحقیق کے لیے یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل برانچ کے سائنسدانوں نے لیبارٹری میں جنوبی افریقی قسم جیسا وائرس تیار کیا، جس میں وہی میوٹیشنز اسپائیک پروٹین میں تھیں جو اس قسم بی 1351 میں دریافت ہوئی ہیں۔

محققین نے اس تدوین شدہ وائرس کو ایسے افراد کے خون کے نمونوں میں شامل کیا جن کو ویکسین استعمال کرائی گئی تھی اور دریافت کیا کہ پرانی قسم کے مقابلے میں اس نئی قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کی سطح میں دوتہائی حد تک کمی آئی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے۔

ابھی ایسا کوئی معیار طے نہیں ہوسکا کہ کتنی مقدار میں اینٹی باڈیز وائرس سے تحفظ کے لیے ضروری ہیں، تو یہ کہنا مشکل ہے کہ دوتہائی حد تک کمی سے ویکسین اس نئی قسم کے خلاف کس حد تک غیرمؤثر ہوسکتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ فائزر ویکسین ممکنہ طور پر اس نئی قسم کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ اینٹی باڈیز کی کم از کم مقدار کتنی ہونی چاہیے، جبکہ مدافعتی ردعمل بھی تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے کافی اہمیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر جنوبی افریقی قسم سے ویکسین کی افادیت میں نمایاں کمی آجاتی ہے تو بھی یہ کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ویکسین جنوبی افریقی قسم کے خلاف کس حد تک کام کرتی ہے۔

فائزر اور بائیو این ٹیک نے اس حوالے سے کہا کہ ان کی جانب سے برازیل میں دریافت ہونے والی کورونا کی نئی قسم کے خلاف ویکسین کی افادیت جانچنے کے لیے اسی طرح کا تحقیقی کام کررہی ہیں۔

دوسری جانب موڈرنا نے بھی 17 فروری کو اسی طبی جریدے میں ڈیٹا جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ جنوبی افریقی قسم کے خلاف ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں پرانی قسم کے مقابلے میں 6 گنا کمی آتی ہے۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ اس قسم کے خلاف ویکسین کی افادیت کا تعین کرنا ابھی باقی ہے۔

اس سے قبل فروری کے شروع میں جنوبی افریقہ میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین ویکسین کورونا وائرس کی جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی قسم کے خلاف محض 10 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔

یہ تحقیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی اور اس میں 2 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی اوسط عمر 31 سال تھی۔

تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ویکسین اس نئی قسم کے معمولی اور معتدل کیسز میں بہت کم تحفظ فراہم کرتی ہے، تاہم سنگین بیماری کے خلاف زیادہ مؤثر ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل جانسن اینڈ جانسن اور نووا واکس کی ویکسینز کی افادیت بھی جنوبی افریقی قسم کے خلاف کم دریافت ہوئی تھی۔

کووڈ 19 کے مریضوں کو درپیش ایک پراسرار مسئلے کی وجہ سامنے آگئی

وہ 7 علامات جن کو دیکھتے ہوئے کووڈ ٹیسٹ ہونا چاہیے، تحقیق

دانستہ کووڈ سے بیمار کرکے اثرات جانچنے کیلئے دنیا کا پہلا ٹرائل