دنیا

’می ٹو‘ مہم: سابق بھارتی وزیر جنسی ہراسانی کا مقدمہ ہار گئے

سابق وزیر ایم جے اکبرپر متعدد خواتین نے جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے تھے، جس پر انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی عدالت نے جنسی ہراسانی کے مقدمے میں سابق مملکتی وفاقی وزیر مبشر جاوید (ایم جے) اکبر کے خلاف سناتے ہوئے ان پر الزام لگانے والی خاتون صحافی کو مقدمے سے بری کردیا۔

ایم جے اکبر نے 15 اکتوبر 2018 کو صحافی پریا رامانی پر جنسی ہراسانی کے جھوٹے الزامات لگانے پر ہتک عزت کا فوجداری مقدمہ دائر کیا تھا۔

دیگر ممالک کے مقابلے میں بھارت کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہتک عزت کے تحت فوجداری مقدمہ بھی دائر کریں۔

ایم جے اکبر نے پریا رامانی پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ خاتون نے ان پر جھوٹے الزامات لگائے، جس وجہ سے ان کی شہرت اور سیاست کو دھچکا لگا۔

ایم جے اکبر پر پریا رامانی نے اکتوبر 2018 کے شروع میں ہی جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔

پریا رامانی نے اکتوبر 2018 میں صرف ایم جے اکبر کا نام بتایا تھا جب کہ انہوں نے ان کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا قصہ 2017 میں ہی فیشن میگزین ووگ میں شائع مضمون میں سنایا تھا، تاہم انہوں نے مضمون میں ان کا نام نہیں لکھا تھا۔

پریا رامانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم جے اکبر نے انہیں 1994 میں 23 سال کی عمر میں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا، اس وقت ایم جے اکبر ایک میگزین کے مدیر تھے اور پریا رامانی نوکری کے لیے انہیں انٹرویو دینے گئی تھیں۔

پریا رامانی کے بعد دیگر خواتین نے بھی ایم جے اکبر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے تھے۔

زیادہ تر خواتین نے بتایا تھا کہ جب ایم جے اکبر صحافت میں تھے اور اپنے ‘سنڈے گارجین’ کے مدیر تھے تب انہوں نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔

تاہم بعض خواتین نے ان پر سیاست میں آنے اور وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد بھی جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔

بعض خواتین نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم جے اکبر انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے اور وہ انٹرویو کرنے والی زیادہ تر خواتین صحافیوں کو اپنے انتہائی قریب بیٹھنے، انہیں شراب نوشی کرنے اور بعد ازاں ان کے ساتھ رومانوی انداز میں بات کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، جس وجہ سے خواتین خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتی تھیں۔

ایم جے اکبر نے اس وقت ہی تمام الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور سب سے پہلے الزام لگانے والی خاتون صحافی پریا رامانی پر مقدمہ کردیا تھا۔

اور اب ڈیڑھ سال بعد عدالت نے ان کے مقدمے کو نمٹاتے ہوئے خاتون صحافی کو بری کردیا۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق نئی دہلی کی عدالت نے مختصر فیصلے میں پریا رامانی کو بری کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرمناک بات ہے کہ خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز بلند کرنے پر بدنام کیا جا رہا ہے۔

اسی حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن میجسٹریٹ روندرا پانڈے نے کہا کہ ایک ایسے ملک میں بھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے جس میں ’مہا بھارت اور راماین‘ جیسی خواتین کے حقوق کے لیے داستانیں لکھی گئیں۔

مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج کا کہنا تھا کہ ایم جے اکبر اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر پائے کہ کس طرح پریا رامانی نے ان پر جھوٹے الزامات عائد کیے۔

جج نے فیصلہ سناتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معاشرے میں اہم حیثیت رکھنے والا مرد بھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کر سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنسی طور پر ہراساں ہونے والے شخص کا وقار مجروح ہوتا ہے اور ان میں خود اعتمادی کی کمی بھی ہوجاتی ہے۔

اسی حوالے سے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بتایا کہ عدالت نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ پریا رامانی کے الزامات اور شکایت کام کی جگہ پر ہراسانی کے قوانین کے زمرے میں آتے ہیں اور عدالت نے ایم جے اکبر کی درخواست کو مسترد کردیا۔

دوران سماعت ایم جے اکبر کے وکلا نے پریا رامانی سے مذکورہ معاملے پر کئی سال تک خاموش رہنے سے متعلق بھی سوالات کیے، تاہم عدالت نے ایسے سوالات پر ریمارکس دیے کہ خاتون کی مرضی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کئی دہائیاں بھی خاموش رہ سکتی ہے۔

اگر مذکورہ کیس میں ایم جے اکبر اپنے دعوے ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو پریا رامانی کو دو سال تک جیل کی سزا اور جرمانہ ہوسکتا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد پریا رامانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو اپنی نہیں بلکہ تمام بھارتی خواتین کی جیت قرار دیا اور کہا کہ اب خواتین کو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو سامنے لانے میں ہمت پیدا ہوگی۔

مذکورہ کیس کو بھارت میں ’می ٹو‘ مہم کے نئے دور کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ باقی کیسز میں بھی عدالتیں مذکورہ کیس کی پیروی کریں گی۔

بھارت میں بھی 2018 کے آغاز میں ہی ’می ٹو‘ مہم کا آغاز ہوگیا تھا، تاہم بولی وڈ میں اس مہم کا آغاز ستمبر 2018 میں اداکارہ تنوشری دتہ کی جانب سے اداکار نانا پاٹیکر پر جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد ہوا تھا۔

’می ٹو‘ مہم کے تحت بھارت میں متعدد بولی وڈ شخصیات، اسپورٹس شخصیات، صنعت کاروں اور سیاستدانوں پر بھی خواتین نے جنسی ہراسانی، ریپ اور استحصال کے الزامات لگائے تھے اور کئی خواتین نے دہائیوں بعد اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے مقدمات بھی درج کروائے تھے۔

اسی طرح متعدد شخصیات نے اپنے خلاف دہائیوں بعد جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے جانے پر عدالتوں میں ہرجانے کے دعوے دائر کیے تھے جب کہ بعض افراد نے خود پر جھوٹے الزامات لگائے جانے پر پولیس میں شکایتیں بھی درج کروائی تھیں۔

’می ٹو‘ مہم کا آغاز اکتوبر 2017 میں امریکا سے اس وقت ہوا تھا جب پہلی بار کم از کم تین درجن خواتین و اداکاراؤں نے فلم پروڈیوسر ہاوری وائنسٹن پر ریپ، جنسی ہراسانی اور استحصال کے الزامات لگائے تھے۔

بعد ازاں 2020 کے شروع میں امریکی عدالت نے ہاروی وائنسٹن کو ڈیڑھ دہائی قبل خاتون کا ریپ کرنے کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا۔

’می ٹو‘ مہم کے تحت امریکا اور بھارت سمیت دنیا بھر کی خواتین اکتوبر 2017 کے بعد اپنے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات سمیت نامناسب رویوں کو سامنے لا رہی ہیں اور پاکستان میں بھی اس مہم کی دھوم ہے۔

بھارت کے اسٹیٹ وزیر خارجہ پر بھی جنسی ہراساں کا الزام

بھارتی وزیر نے جنسی ہراساں کے الزامات کو مسترد کردیا

بھارتی وزیر نے جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی صحافی کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا