سینیٹ میں اوپن بیلٹ کا معاملہ: ای سی پی کن بنیادوں پر نظر ثانی کرسکتا ہے، مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سینیٹ میں اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کن بنیادوں پر نظر ثانی کرسکتا ہے جس کی وضاحت آئین میں موجود ہو ۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے صحافی حسنات ملک کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'الیکشن کمیشن کن بنیادوں پر نظر ثانی کرسکتا ہے جس کی وضاحت آئین میں موجود ہو'۔
مزیدپڑھیں: صدارتی ریفرنس: الیکشن کمیشن سے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تجاویز طلب
انہوں نے مزید کہا کہ 'اگر آئینی ترمیم درکار ہے تو اس کام کو کرنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے'۔
مریم نواز نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ 'سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ غیرمعمولی احتیاط سے کام لے اور ایسا کچھ نہ کرے، جس سے یہ تاثر ملے کہ کسی کے ایما پر آئین کا چہرہ مسخ کر دیا گیا ہے'۔
صحافی حسنات ملک نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’سرپم کورٹ چاہتی تھی کہ سینیٹ انتخابات موجودہ قوانین کے تناظر میں قابل شناخت/ ٹیریس ایبل ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’جبکہ الیکشن کمیشن کمشنر کے مطابق ایسا کوئی بھی عمل آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا، جس پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں ’نظر ثانی‘ کے لیے 24 گھنٹے دیے‘‘۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس میں الیکشن کمیشن سے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تجاویز طلب کی ہیں۔
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی تھی اور اس دوران عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور دیگر اراکین کمیشن پیش ہوئے تھے۔
مزیدپڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کرلیا
دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں ماضی میں بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے، قابل شناحت بیلٹ پیپرز کی قانون میں گنجائش نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد خفیہ نہیں رہ سکتا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔
ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔
صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔
مزیدپڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ
آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔
علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔