پاکستان

اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

جے آئی ٹی کے سربراہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن ہیں، سی ٹی ڈی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی شامل ہیں، نوٹیفکیشن
|

اسلام آباد: چیف کمشنر نے اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔

واضح رہے کہ 13 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ 8 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بلاک پر حملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے۔

اس حوالے سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ڈی آئی جی/آپریشن اسلام آباد نے بذریعہ خط کہا تھا کہ مارگلہ اور رمنا تھانے میں 8 فروری 2021 کو درج مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت درج کی گئی تھی جس لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق اسی کو دیکھتے ہوئے متعلقہ اتھارٹی نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی جو پولیس اور خفیہ اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملے کے واقعے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

اس جے آئی ٹی کے چیئرمین سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن اسلام آباد ہیں جبکہ اس کے اراکین میں ایس ایس پی سی ٹی ڈی اسلام آباد، ایس پی صدر زون، ایس ٹی پی او مارگلہ اور رمنا، ایس ایچ او تھانہ مارگلہ اور رمنا، تفتیشی افسر انسپکٹر عبدالجبار شامل ہیں۔

اس کے علاوہ انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ بارز (اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن) سے دوران تفتیش ضرورت کے موقع پر مدد حاصل کرے۔

مزید یہ کہ جے آئی ٹی تھانہ مارگلہ اور رمنا میں متعلقہ مقدمات کی تفتیش کرے گی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ

خیال رہے کہ اتوار 7 فروری کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔

اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کے خلاف گالم گلوچ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: 'غیر قانونی چیمبرز' مسمار کرنے پر وکلا کا احتجاج، ہائی کورٹ پر دھاوا

احتجاج کرنے والے وکلا نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور چیف جسٹس بلاک میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے ساتھ انہوں نے جبری طور پر میڈیا کو احتجاج کی کوریج کرنے سے روکا اور صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے پولیس ری انفورسمنٹ اور رینجرز کے کنٹرول سنبھالنے تک چیف جسٹس بلاک کا گھیراؤ جاری رکھا۔

بعدازاں وکلا کے منتخب نمائندوں نے ججز کے ساتھ مذاکرات کیے اور احتجاج ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے۔

ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق وکلا نے سرکاری خرچ پر مسمار کیے گئے چیمبرز کی دوبارہ تعمیر، ڈپٹی کمشنر کے تبادلے اور رات گئے کیے گئے آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے وکیلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں توڑ پھوڑ میں ملوث 17 وکلا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی جبکہ متعدد وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

عدالت کا ایک مرتبہ پھر ’لاپتا‘ افراد کے معاملے پر ٹاسک فورس کو ہر ماہ ملنے کا حکم

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں ایک ہزار 48، اموات میں 26 کا اضافہ

منال خان اور احسن محسن نے ویلنٹائنز ڈے پر منگنی کرلی؟