پاکستان

سیٹیلائٹ تصاویر میں دیکھا گیا سامان لاپتا کوہ پیماؤں کا نہیں، سرچ مشن

اگر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی پر چڑھنا مشکل ہے تو لاپتا ہونے والوں کو تلاش کرنا زیادہ مشکل ہے، وینیسا او برائن
|

لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے مشن نے انکشاف کیا ہے کہ ایس اے آر ٹیکنالوجی کے استعمال، اسناد و اوقات کا جائزہ لینے اور سیٹیلائٹ تصاویر کا معائنہ کرنے کے بعد جو سراغ ملے تھے وہ ایک سلیپنگ بیگ، پھٹے ہوئے ٹینٹس یا سلیپنگ پیڈز نکلے اور ان میں سے کچھ بھی لاپتا کوہ پیماؤں سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔

پاکستان کے محمد علی سدپارہ، چلی کے جان پابلو مہر اور آئس لینڈ کے جان اسنوری موسم سرما کے دوران کے-2 کی چوٹی سر کرنے کے مشن کے دوران 10 روز قبل 5 فروری کو لاپتا ہوگئے تھے۔

تینوں کوہ پیماؤں کو آخری مرتبہ کے-2 کے مشکل ترین مقام بوٹل نیک پر دیکھا گیا تھا، جس کے بعد گزشتہ ایک ہفتے سے موسم کی خراب صورتحال نے ان کی زمینی اور فضائی تلاش کی کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فوج کا لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے انفراریڈ کیمرے استعمال کرنے کا اعلان

اس ضمن میں آج (پیر کے روز) الپائن کلب آف پاکستان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ 'حکومت اور اسٹیک ہولڈرز لاپتا کوہ پیماؤں کو تلاش کرنے کے لیے اپنی بہترین کوششیں کررہے ہیں'۔

بیان میں بتایا گیا کہ 'ایپکس کمیٹی کا ایک اجلاس 17 فروری کو گلگت میں ہوگا، مہربانی کر کے قبل از وقت بیانات سے گریز کریں'۔

اس ضمن میں برطانوی نژاد امریکی کوہ پیما وینیسا او برائن جو پاکستان کی خیر سگالی سفیر ہیں اور ایک ورچوئل بیس کیمپ کے ذریعے لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش اور ریسکیو مشن میں تعاون کررہی ہیں، ان کی جانب سے اتوار کی رات ایک بیان جاری کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ 15 فروری، پیر کو ایک پریس کانفرنس کی جائے گی جو 'بالخصوص علی سد پارہ سے متعلق ہے' جبکہ کے-2 کا ورچوئل اور بیس کیمپ بھی بند کردیا گیا ہے۔

مذکورہ بیان کے مطابق 'آج دنیا کے کئی حصوں میں ویلینٹائن کا دن ہے اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آنا یاد رکھیں اور وہ جو آپ کے قریب ہیں انہیں بتائیں کہ انہیں کتنا سراہا جاتا ہے'۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ 'ان تین بلند اور مضبوط حوصلے رکھنے والے کوہ پیماؤں کے 13 بچے ہیں، جان اسنوری کے 6 علی سد پارہ کے 4 اور جان پابلو مہر کے 3 اور مجھے معلوم ہے کہ انہیں ان کے خاندان کا پیار محسوس ہوتا ہے، ان خاندانوں کو وقت، جگہ اور شفقت دیں'۔

مزید پڑھیں: لاپتا کوہ پیماؤں کی انفراریڈ کیمروں سے دوسرے روز بھی تلاش جاری

وینیسا او برائن نے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ 'آج 9 روز گزر چکے ہیں، اگر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی پر چڑھنا مشکل ہے تو لاپتا ہونے والوں کو تلاش کرنا زیادہ مشکل ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایس اے آر ٹیکنالوجی استعمال کی، سیٹیلائٹ تصاویر کی جانچ پڑتال کی، سیکڑوں تصاویر اسکین کی، مزید نشاندہی کی گئی، چوٹی سر کرنے کے منصوبے کو دوبارہ پڑھا، اوقات اور گواہیوں کا جائزہ لیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ہم نے ماہرین کو شامل کیا جنہوں نے اپنی مہارت فراہم کی اور پاکستانی، چلی اور آئس لینڈ کے حکام کی بے حد حمایت کے ساتھ کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک بے مثال تلاش جاری ہے۔

بیان میں علاقے کے تصویری سروے کے لیے ایف-16 بھیجنے کے لیے پاک فوج اور 'فراخ دل اور مددگار افراد جو ہمارے نیٹ ورکس میں سے ہمارے ساتھ شامل ہوئے' ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سخت موسم کے باعث لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کا فضائی آپریشن پھر معطل

اس کے علاوہ امتیاز (سدپارہ) اور اکبر (سد پارہ) کا خصوصی طور پر اور ان تمام لوگوں کو جو اس تلاش میں منسلک ہوئے شکریہ ادا کیا گیا۔

دوسری جانب الپائن کلب پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ کے2 بیس کیمپ پر موسم کی صورتحال شدید سرد ہے اور تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'صورتحال مشکل ہے لیکن موسمی حالات میں ڈھل جانے والے بلندی پر چڑھنے والے قلیوں کی ایک ٹیم کو استعمال کرتے ہوئے تلاش کا مشن جاری رہے گا۔

خیال رہے کہ آخری مرتبہ کے-2 پہاڑ کے مقام' بوٹل نیک' پر دیکھے گئے محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش کا مشن مسلسل خراب موسم سے متاثر ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: سخت موسم کے باعث 'کے ٹو' پر لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش تاحال جاری

پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر سے اس وقت رابطہ منقطع ہوگیا تھا جب انہوں نے 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔

محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی 'بوٹل نیک' (کے ٹو کا خطرناک ترین مقام) کے نام سے مشہور مقام تک ان تینوں کوہ پیماؤں کے ہمراہ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کے سبب کیمپ 3 پر واپس آئے تھے۔

تینوں کوہ پیماؤں کا جمعے کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا اور ان کی ٹیم کو جب ان کی جانب سے رپورٹ موصول ہونا بند ہوگئی تو ہفتے کو وہ لاپتا قرار پائے تھے۔

ہفتے کے روز ہیلی کاپٹروں نے لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کے لیے 7000 میٹر تک پرواز کی تھی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔

اتوار کے روز آرمی کے ہیلی کاپٹرز نے حد سے بڑھ کر 7 ہزار 800 میٹر کی بلندی تک پرواز کی لیکن لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ نہ مل سکا اور مشن معطل کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: موسم کی خراب صورتحال، لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش میں حائل

پیر کے روز بھی شدید موسمی حالات اور حدِ نگاہ کم ہونے کے باعث مشن معطل کیا گیا۔

اسی طرح منگل کے روز تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنے اور برف باری کی وجہ سے مشن معطل رہا جبکہ بدھ کو بھی تیز ہوائیں اور موسم کی خراب صورتحال کے باعث تلاش اور ریسیکو کے مشن نہ کیا جاسکا۔

بعدازاں ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ جمعرات اور جمعہ کو اونچے پہاڑی مقامات تک رسائی کی خصوصی مہارت کی حامل 4 افراد پر مشتمل ٹیم کے ہمراہ سی-130 طیارے نے خصوصی انفراریڈ کیمروں کی مدد سے لاپتا کوہ پیماؤں کو تلاش کیا تھا۔

ابتدا میں تلاش او ریسکیو مشن میں بلندو بالا چوٹیاں سر کرنے والے مقامی کوہ پیماؤں میں شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علی، رومانیہ کے الیکس گوان، نذیر صابر، چھانگ داوا شیرپا اور موسم سرما میں کوہ پیمائی کرنے والی ایس ایس ٹی ٹیم کے دیگر اراکین شامل تھے۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر موسمِ سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی دوسری مہم کے دوران لاپتا ہوئے۔

اس سے قبل 24 جنوری کو محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان ٹی ٹوئنٹی میں فتوحات کی سنچری کرنے والی دنیا کی پہلی ٹیم

چیئرمین نیب کی افسران کو میگاکرپشن کیسز منطقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت

کچھ افراد اچانک ہارٹ اٹیک سے کیوں انتقال کرجاتے ہیں؟