پاکستان میں ’ہوم شیف‘ کا رجحان کیوں اور کیسے بڑھا؟
بیٹر اینڈ ڈو کی بانی ایشہ حسین کا کہنا تھا کہ ’میں نے بیکنگ کا آغاز بچپن میں اپنی دادی اور والدہ کی مدد کرنے کے لیے کیا تھا۔ میری تعلیمی قابلیت مارکیٹنگ اینڈ برینڈ کمیونیکیشن میں بیچلرز کی ہے اور میں نے 6 سال تک مختلف اشتہاری اور میڈیا ایجنسیوں کے لیے کام کیا ہے۔ مجھے بیکنگ میں مزا آتا تھا لیکن میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں اسے کیریئر کے طور اختیار کروں گی۔ لیکن جب مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ڈیسک پر کام کرنے سے زیادہ کچن میں رہنے اور مختلف ترکیبوں کو آزمانے کو ترجیح دیتی ہوں تب میں نے یہ رسک لینے اور پروفیشنل بیکنگ کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا‘۔
اس وقت انسٹاگرام پر بیٹر اینڈ ڈو کے 8 ہزار سے زیادہ فالورز ہیں اور ان کے زیادہ تر منی کپ کیک، براؤنیز اور کیک آن لائن فروخت کا آغاز ہوتے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ سال کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن اور حکومتی پالیسی کی وجہ سے انڈور ڈائننگ پر پابندی تھی۔ اس لیے لوگوں نے ٹیک اوے اور ہوم ڈیلیوری کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بھوک کا علاج کیا۔ اس دوران جب کئی ریسٹورنٹ نقصان میں چل رہے تھے تو ہوم شیف کا کاروبار عروج پر تھا۔
ہوم شیف سے مراد گھر سے کیا جانا والا ایک چھوٹا کاروبار ہے جسے عموماً خواتین چلاتی ہیں جو ٹیک اوے اور ہوم ڈیلیوری کے ذریعے صارفین تک گھر کا تازہ بنا ہوا کھانا پہنچاتی ہیں۔ صارفین اپنا تجربہ دوسروں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح یہ کاروبار مقبول ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور اب فوڈ ڈیلیوری سروسز نے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے۔
نادیہ مقیت خان، ’مائی اسپائسی کچن بائے نادیہ‘ کو چلاتی ہیں اور لیلامہ شاہ ’Deli-Cious‘ کی مالک ہیں۔ ان دونوں کا ہی یہ کہنا ہے کہ انہوں نے ہوم شیف کے کاروبار کا آغاز صرف شوق کی بنیاد پر کیا تھا لیکن پھر گھر والوں اور دوستوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے انہوں نے اس شوق کو کاروبار بنالیا۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس کاروبار کے لیے بہت زیادہ سرمایہ نہیں چاہیے ہوتا۔ ایشہ نے بتایا کہ ’میں نے ایک اوون اور ایک مکسر سے ابتدا کی تھی اور جیسے جیسے کاروبار بڑھتا گیا ویسے ہی میں مزید چیزیں خریدتی گئی، یہاں تک کہ میں نے کچھ لوگوں کو نوکری پر بھی رکھ لیا‘۔
نادیہ نے اپنا کام صرف 3 ہزار روپے سے شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کام بڑھنے کے ساتھ میں پیسے جمع کرتی گئی‘۔
لیلامہ کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں نے اسٹف بریڈ بنانے سے آغاز کیا، یہ ایک نئی چیز بھی تھی اور آسان بھی، اور پھر اگر یہ کام نہ بھی چلتا تو مجھے کوئی نقصان نہیں ہوتا، لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں کامیاب رہی‘۔
شہریار خان کراچی سے کام کرنے والی ’ہوم شیف ڈاٹ پی کے‘ میں شعبہ مارکیٹنگ کے نائب صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس 100 سے زیادہ شیف کام کررہے ہیں۔ ہمارے بہترین شیف جاپانی کھانوں سے لے کر حیدرآبادی کھانوں تک 20 سے زیادہ اقسام کے کھانے بناتے ہیں‘۔
گزشتہ سال کی سب سے بڑی مشکل تو کورونا وائرس ہی تھی جس نے ریسٹورنٹس کے ساتھ ساتھ گھروں سے چلنے والے کاروبار پر بھی اثر ڈالا تھا۔ شہریار کا کہنا ہے کہ ’لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ میں ہوم ڈیلیوری پر بھی پابندی تھی۔ بہرحال ہمیں جلد ہی ہوم ڈیلیوری کی اجازت مل گئی لیکن اس کے بعد رہنے والی پابندیاں بھی ہمارے لیے مشکلات کا سبب بنی رہیں‘۔
’ایک اور بڑی مشکل ’لنچ ٹائم‘ کا ختم ہوجانا تھا۔ چونکہ دفاتر بند تھے اس وجہ سے لوگ گھروں سے کام کر رہے تھے۔ ناشتہ دیر سے ہورہا تھا اور رات کا کھانا جلدی کھایا جارہا تھا اس وجہ سے دوپہر کا کھانا کم ہوگیا تھا۔ یوں ہمیں دفاتر سے متعلق بننے والے کھانے کے پلان میں نقصان کا سامنا کرنا پڑا‘۔
بیٹر اینڈ ڈو جیسے کاروبار کو بھی کورونا کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایشہ کہتی ہیں کہ ’ہماری فروخت میں خاطر خواہ کمی آئی۔ میرا خیال ہے کہ شاید لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ آیا باہر سے کھانا منگوانا محفوظ بھی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ تمام تقریبات بھی منسوخ ہوچکی تھیں‘۔
کئی کاروبار ایسے تھے جنہیں مجبوراً قیمتیں کم کرنی پڑیں۔ نادیہ نے ہمیں بتایا کہ ’میرا کام مہینوں تک بند پڑا رہا کیونکہ میرے پاس کوئی آرڈر ہی نہیں تھا۔ ایسے وقت میں تو کچھ بڑے ریسٹورنٹس نے بھی اپنے ملازمین کو فارغ کردیا تھا‘۔
دوسری جانب لیلامہ نے خود ہی آرڈر لینا بند کردیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں 8 سال سے یہ کام کر رہی ہوں لیکن اس مرتبہ مجھے لگا کہ اب آرڈر لینا میرے لیے اور میرے گھر والوں کی صحت کے لیے محفوظ نہیں ہوگا، اس وجہ سے میں نے مئی تک آرڈر لینا بند کردیے‘۔
وقت کے ساتھ ساتھ حالات تو بہتر ہوئے لیکن ریسٹورنٹس ابھی بھی بند تھے۔ یہاں لاک ڈاؤن ہوم شیفس کے لیے فائدہ مند بھی ثابت ہوا کیونکہ لوگ باہر کھانے تو نہیں جاسکتے تھے لیکن کھانا گھر پر ضرور منگوا سکتے تھے۔ اور بڑے ریسٹورنٹس کی بندش کی وجہ سے انہوں نے ہوم شیفس کو کھانے کے آرڈر دیے۔
کچھ ہوم شیفس کا اس دوران فائدہ بھی ہوا۔ شہریار نے بتایا کہ ’ہم نے رات کے کھانوں اور اسنیکس پر زیادہ توجہ دی۔ جبکہ دال اور سبزی فروخت کرنے والے شیف دراصل فائدے میں رہے۔ ویسے تو لوگ کھانے کے بارے میں نئی نئی چیزوں کا تجربہ کرتے تھے لیکن ان حالات میں سب کچھ بدل گیا تھا‘۔
گھر پر مستقل طور پر زیادہ لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے کھانا بھی زیادہ پک رہا تھا۔ اس وجہ سے لوگ زیادہ کھانا باہر سے آرڈر کررہے تھے اور وہ کھانا بھی روزمرہ کا ہوتا تھا۔ شہریار نے بتایا کہ ’شاید اسی وجہ سے کئی ہوم شیفس کو منافع ہوا۔ دسمبر 2020ء میں ہم نے سال کے آغاز کی نسبت دگنا کاروبار کیا۔ زیادہ سے زیادہ افراد اب کچن کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ مانگ میں یہ اضافہ برقرار رہے گا‘۔
غیر روایتی پکوان تیار کرنے والے کاروبار کے برعکس وہ ہوم شیف زیادہ کامیاب رہے جو روزمرہ کے کھانے اور اسنیکس فروخت کرتے تھے۔ ایشہ کا کہنا تھا کہ چھوٹی تقاریب اور تحفے دینے کے لیے تو میٹھے پکوانوں کے کافی آرڈر آرہے ہیں لیکن ابھی تک بڑی تقریبات کے لیے آرڈر آنا شروع نہیں ہوئے‘۔
اس وقت ہوم شیفس مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ایشہ کا کہنا ہے کہ ’حالات روز بروز تبدیل ہورہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی حکومتی پالیسیاں بھی تبدیل ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری اپنی ٹیم کو وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے منصوبہ بندی کرنا اور آرڈر لینا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اگر میں یا میری ٹیم کا کوئی فرد ایسے شخص سے ملے جسے کورونا ہو تو ہمیں بھی خود کو قرنطینہ میں رکھنا پڑے گا اور اس دوران کام کو بند رکھنا پڑے گا اور آرڈر منسوخ کرنے پڑیں گے۔
لیلامہ جیسے کئی ہوم شیف اکیلے کام کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں عموماً خود ہی سارا کام کرتی ہوں۔ اگر میں کبھی کسی کی مدد لوں بھی تو وہ صرف کچن صاف کرنے اور برتن دھونے کے لیے ہوتی ہے۔ مجھے اسٹاف کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘۔
ایشہ کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ 9 ماہ کے دوران مجھے غیر مستقل اسٹاف کا انتظام کرنا پڑا تاکہ وائرس کا خطرہ کم سے کم ہو۔ کئی لوگ خود چھوڑ کر چلے گئے اور کچھ کو نکال دیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ سال میں نے 6 مرتبہ نئے لوگ رکھے اور انہیں تربیت دی‘۔
سفری پابندیوں اور دیگر ممالک میں لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے غیر ملکی پکوان کے لیے درکار اجزا عموماً دستیاب نہیں ہوتے۔ اگر کہیں سے وہ اجزا دستیاب ہو بھی جائیں تو ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نادیہ کا کہنا تھا کہ ’میں گھر سے کام کرتی ہوں اس وجہ سے میرے پاس اسٹاک رکھنے کی بہت کم جگہ ہے۔ مجھے روز مینیو میں سے کوئی نہ کوئی پکوان ہٹانا پڑتا ہے کیونکہ میرے پاس اس کے لیے درکار اجزا نہیں ہوتے۔ شکر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات معمول پر آرہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی یہ غیر یقینی کی کیفیت ختم ہوجائے گی‘۔
کورونا کا ایک مثبت اثر یہ ہوا کہ اب حفظان صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا جارہا ہے۔ شہریار کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے شیف اور ڈیلیوری ٹیموں کو فوڈ سیفٹی، حفظان صحت کے اصولوں اور کھانے کو صاف ستھرے ماحول میں تیار کرنے اور ڈیلیور کرنے کی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ ہماری ایپلیکیشن میں کھانے پر رائے دینے کی سہولت موجود ہے جس سے نئے صارفین کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو کس قسم کی چیز ڈیلیور ہوگی‘۔
موجودہ پریشانیوں کے باوجود بھی ہوم شیفس رواں سال کے حوالے سے پر امید ہیں۔ نادیہ کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا رہا لیکن ہم ان سے نبرد آزما ہوئے۔ اب مستقبل اس سے بہتر ہی ہوسکتا ہے۔
یہ مضمون 14 فروری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
مہرین نوید چاولہ نے 2015 میں نکسر کالج سے اے لیولز کیا ہے۔ وہ مصنفہ بننا چاہتی ہیں اور جانوروں سے پیار کرتی ہیں۔ وہ ڈان اور عائشہ چندریگر فاؤنڈیشن میں انٹرن شپ بھی کر چکی ہیں۔
وہ پاکستانی معاشرے پر ایک مثبت اثر چھوڑنا چاہتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔