اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس: وکلا کی ضمانت مسترد، 7 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں اسلام آباد بار کے سیکریٹری لیاقت سمیت 4 وکلا کی ضمانت کے لیے دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ان کا 7 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرلیا۔
پولیس نے عدالت میں گرفتار چار ملزمان کو پیش کیا، جن میں سے تین ملزمان کو ہائی کورٹ حملہ کیس اور ایک ملزم کو کچہری میں سیشن جج کی عدالت میں توڑ پھوڑ پر گرفتار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ہائی کورٹ حملہ کیس کی ایف آئی آر تھانہ رمنا جبکہ سیشن جج کی عدالت میں توڑ پھوڑ کا مقدمہ تھانہ مارگلہ میں درج ہے۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گرفتار 4 وکلا کی درخواست ضمانتیں مسترد کردیں۔
عدالت نے ضمانت کی درخواستوں پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا جسے جج راجا جواد عباس حسن نے سنایا۔
عدالت میں نوید ملک، چوہدری ظفر علی وڑائچ، نازیہ بی بی اور شیخ محمد شعیب نے ضمانت کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
عدالت نے جیل بھجوائے گئے وکلا کو 19 فروری کو دوبارہ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
توہین عدالت کی کارروائی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت 18 فروری کو ہو گی جس کے لیے وکلا کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے نوٹسز ارسال کردیے گئے۔
مزید پڑھیں: مجھے ساڑھے تین گھنٹوں تک یرغمال رکھا گیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
واضح رہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی سمیت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس لبنی سلیم پرویز کے بینچز بھی وکلا کے خلاف توہین عدالت کے کیسز نہیں سنیں گے۔
جسٹس عامر فاروق کے بینچ میں احسن حمید گجر اور دیگر وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہو گی جبکہ جسٹس فیاض احمد جندران کے بینچ میں کلثوم رفیق ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہو گی۔
جسٹس غلام اعظم قمبرانی کے بینچ میں حافظ مظہر جاوید سمیت دیگر وکلا کے خلاف توہین عدالت کیسز سماعت کے لیے مقرر کیے گئے جبکہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے بینچ میں خالد محمود ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہو گی۔
اس کے علاوہ جسٹس بابر ستار کے بینچ میں راجا امجد ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوگی۔
وکلا کا پولیس پر ہراساں کرنے کا الزام
اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملے کے کیس میں پولیس کی جانب سے بے قصور وکلا کے گھروں پر چھاپوں سے اشتعال بڑھانے پر عدالت عالیہ نے اظہار تشویش کرتے ہوئے چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس کو بے گناہ وکلا کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے استفسار کیا کہ 'پولیس کیا کسی کی گیم کھیل رہی ہے، یہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟'
عدالت کا کہنا تھا کہ دھاوے کی مذمت کرنے والے وکلا کے گھروں پر بھی چھاپے کیوں مارے جا رہے ہیں؟
عدالت میں وکیل نذیر جواد نے بتایا کہ 'پولیس نے گزشتہ رات میرے آفس پر چھاپہ مارا، نہ میں احتجاج میں تھا نہ اس کی حمایت کی تھی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے تو حملے کی کھل کر مذمت کی تھی'۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ 'آپ کے آفس پر چھاپے مارے ہیں؟ آپ تو کہیں شامل بھی نہیں تھے'، اس پر وکیل نے کہا کہ 'میں نے تو اس اقدام کی مذمت کی عدالتوں میں بھی پیش ہو رہا ہوں'۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'علیم عباسی صاحب کا بھی مجھے پتا چلا ہے کہ ان کے گھر پر بھی چھاپا مارا گیا ہے، وہ تو اس میں شامل نہیں تھے ان کا کردار تو مثبت رہا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی وکلا تنظیموں کو قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کی تاکید
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے اور کسی چیز کا دکھ نہیں صرف یہ ہے ادارہ میرا نہیں آپ سب کا بھی ہے، میں یقینی بناوں گا کہ جن کی کوئی مداخلت نہیں ان کو ہراساں نہ کیا جائے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میرے علم میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو نہیں بتا سکتا، جنہوں نے جرم کیا ہے ان کے خلاف درست لیکن کسی بے گناہ کو ہراساں نہ کیا جائے'۔
بعد ازاں عدالت نے بے قصور وکلا کے گھروں پر پولیس کے چھاپوں پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کو کل تک جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ
خیال رہے کہ 7 فروری کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔
اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ’بار سیاست‘ میں وکلا کی فائرنگ کی خطرناک روایت، مقدمات درج
آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کے خلاف گالم گلوچ کی گئی۔
احتجاج کرنے والے وکلا نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور چیف جسٹس بلاک میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے ساتھ انہوں نے جبری طور پر میڈیا کو احتجاج کی کوریج کرنے سے روکا اور صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے پولیس ری انفورسمنٹ اور رینجرز کے کنٹرول سنبھالنے تک چیف جسٹس بلاک کا گھیراؤ جاری رکھا۔
بعدازاں وکلا کے منتخب نمائندوں نے ججز کے ساتھ مذاکرات کیے اور احتجاج ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے۔
ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق وکلا نے سرکاری خرچ پر مسمار کیے گئے چیمبرز کی دوبارہ تعمیر، ڈپٹی کمشنر کے تبادلے اور رات گئے کیے گئے آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے وکیلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔