افسانہ: چالباز۔۔۔!
حاجی رمضان (کریانے والے)، جعفر صاحب اور بابو بھائی کی برسوں پرانی دوستی میں ایک ماہ قبل اس وقت دراڑیں پڑنی شروع ہوئیں جب 50، 55 سالہ بلقیس بیگم اپنی 5 جوان جہان کے ہمراہ اس محلے میں بطور کرائے دار آباد ہوئیں۔
پھر فقط بیٹیاں ہی نہیں بلقیس بیگم خود بھی اچھی خاصی خوبصورت شکل و صورت کی مالک تھیں اور اس عمر میں بھی انہوں نے خود کو یوں بنا سنوار کر رکھا ہوا تھا کہ 40، 45 سے زیادہ عمر کی نہیں لگتی تھیں اور انہوں نے محلے میں ہی نہیں محلے والی عورتوں کے بھی دل میں اپنی پُرخلوص طبعیت کے باعث گھر کرلیا تھا۔
اب محلے کی کسی بھی عورت کو اسپتال جانا ہو یا کسی بچت بازار تو یہ ممکن نہیں تھا کہ بلقیس بیگم کو ہمراہ نہ لیں اور 2، 4 عورتیں تو ایسی بھی تھیں جو بلقیس بیگم کو اپنے کسی عزیز کی فوتگی کی تعزیت یا بیمار رشتے دار کی عیادت کے لیے بھی اپنے ساتھ لے جانے لگی تھیں۔ یعنی بلقیس بیگم فقط محلے کی عورتوں کی سہیلی ہی نہیں ان کے رشتے داروں کی بھی رشتے دار بن گئی تھیں۔
دوسری جانب محلے کے نوجوان جو عرصہ دراز سے موبائل کی لت میں پڑے گلی کے نکڑ کو فراموش کر بیٹھے تھے اب وہ بھی بلقیس بیگم کی بیٹیوں کے چکر میں سرِ شام ہی 2، 4 کی ٹولیوں میں جمع ہوجاتے بالفاظ دیگر بلقیس بیگم نے صرف محلے کا ایک گھر ہی نہیں پورا محلہ آباد کردیا تھا۔
اُدھر حاجی رمضان، جعفر صاحب اور بابو بھائی کی برسوں پرانی دوستی میں پڑنے والی دراڑ کی وجہ بھی یہی بلقیس بیگم کی ذات ٹھہری۔
مزید پڑھیے: افسانہ: کنجوس جواری
حاجی رمضان اور جعفر صاحب اس وقت سے دوست تھے جب وہ ریلوے میں ملازم تھے اور اب تو خیر سے دونوں اپنی ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے جبکہ بابو بھائی محلے داری اور ہم عمری کی وجہ سے آپس میں دوست تھے۔
حاجی رمضان گلی کے کونے والے مکان میں رہتے تھے تو اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں ریلوے سے ملازمت ختم ہونے کے بعد اپنے گھر کی نچلی منزل میں ایک بڑی کریانے کی دکان کھول لی جو کریانہ کم اور ایک چھوٹا سا ڈیپارٹمنٹل اسٹور زیادہ دکھائی دیتا تھا، مگر محلے بھر میں وہ حاجی رمضان کریانے والے کے نام سے مشہور ہوچکے تھے۔
بلقیس بیگم کے آنے سے پہلے تک حاجی رمضان کا یہی کریانہ اسٹور ان تینوں دوستوں کی بیٹھک بھی تھا لیکن جب سے بلقیس بیگم نے ان کی دکان سے سامان لینا شروع کیا تھا وہ 10 روپے کی کوئی چیز بھی لینے جاتیں تو آدھے گھنٹے سے پہلے حاجی رمضان کی دکان سے نہیں ہٹتی تھیں اور اس دوران بلقیس بیگم دنیا جہان کی باتیں ان سے بگھار لیتی تھیں۔
حاجی صاحب کی بیوی کے انتقال کو 10 سال ہوچکے ہیں، اس لیے بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ بلقیس بیگم جیسی طرحدار عورت کو وہ نظر انداز کرتے اوپر سے جب وہ بھی بیوہ ہوں۔
اب بلقیس بیگم کا محلے کے ہر گھر میں بلا روک ٹوک آنا جانا تھا، سوائے جعفر صاحب اور بابو بھائی کے گھروں کے۔ دوسری جانب بلقیس بیگم کی بیٹیوں نے محلے کے ہر جوان لڑکے کو بھائی بنالیا تھا۔ کئی لڑکوں نے اعتراض کیا کہ ’تم بھائی مت بولا کرو، اتنی خوبصورت لڑکی کے منہ سے بھائی سننا ایسا لگتا ہے جیسے کانوں میں کوئی پگھلا سیسہ انڈیل دے‘۔ جس پر بلقیس بیگم کی بیٹی صاعقہ نے ایک ادا سے جو اس نوجوان کو جواب دیا اس نے اس کا دل ہی خوش کردیا۔ ’مقصود بھائی شادی سے پہلے کزنز بھی تو بھائی ہوتے ہیں اور یہ تو شادی ہونے پر بھائی بولنے کی عادت ختم ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کل کو میں بھی آپ کو مقصود بھائی کہنا چھوڑ دوں‘۔
ایک شام حاجی رمضان اپنی دکان پر بیٹھے تھے کہ بلقیس بیگم ہاتھوں میں 2 تھیلے اٹھائے ہانپتی کانپتی ان کی دکان میں وارد ہوکر بولیں ’رمضان صاحب میری ایک مدد کریں‘۔
اس پریشانی کے عالم میں اگر بلقیس بیگم حاجی رمضان سے ان کی جان بھی مانگتیں تو وہ دے دیتے۔ جب رمضان صاحب نے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو بولیں کہ ’ارے بڑی والی بیٹی کو اپنی کسی دوست کی سالگرہ میں جانا تھا اور اس کے ساتھ باقی چاروں بھی کمبخت ماری چلی گئیں اور میں بازار جارہی تھی تو ان سے گھر کی چابی لینا بھول گئی۔ اب پتا نہیں وہ کب تک آئیں اور میں کس کے گھر اتنی دیر بیٹھی رہوں گی، ذرا مہربانی کرکے اپنے مین گیٹ پر لگنے والے تالے کی چابی تو دیں، میرے گھر کے دروازے کا تالا بھی اسی طرح کا ہے ممکن ہے آپ کی چابی لگ جائے تو کم از کم میری یہ پریشانی تو ختم ہو‘۔ حاجی رمضان نے بھی جھٹ اپنی چابی بلقیس بیگم کو تھمادی۔
مزید پڑھیے: افسانہ: اختتام
2 منٹ بعد ہی بلقیس بیگم نے معذرت کے ساتھ یہ کہہ کر چابی لوٹا دی کہ یہ ان کے تالے میں نہیں لگ رہی اور پریشانی کے اس عالم میں مبتلا بلقیس بیگم نے محلے کی اپنی نجانے کتنی سہلیوں کی چابیاں لگا کر دیکھیں مگر مجال ہے جو کسی ایک کی بھی چابی ان کے تالے میں لگی ہو۔ وہ تو بھلا ہو کہ بلقیس بیگم کی بیٹیاں کچھ دیر بعد واپس آگئیں تب جاکر بلقیس بیگم کی پریشانی ختم ہوئی۔
ایک ہفتے بعد ہی بلقیس بیگم نے محلے میں اپنی بڑی بیٹی کی شادی کی دعوتیں دینا شروع کردیں۔ اچانک ہونے والی شادی کے متعلق بلقیس بیگم نے محلے کی عورتوں کو یہ بتایا کہ ایک جاننے والوں کے توسط سے بہت اچھا رشتہ آگیا تھا، لڑکے نے واپس دبئی جانا ہے تو جھٹ پٹ کی بنیاد پر یوں جلدی میں شادی کی جارہی ہے۔
کچھ دن بعد ہی بلقیس بیگم کے گھر پر شادی کی رونقیں شروع ہوگئیں۔ ان کے گھر میں کوئی مرد تو تھا نہیں تو شادی کی تقریبات کے انتظامات کی ذمہ داری محلے کے نوجوانوں نے سنبھال لی اور وہ نوجوان جو بڑی بیٹی سے عشق و شادی کی آس لگائے بیٹھے تھے اب شادی کی اس گہما گہمی میں باقی 4 بیٹیوں کی شکل دیکھتے ہوئے وہ بھی ہر کام میں پیش پیش ہونے لگے اور یہ وہ وقت تھا جب بلقیس بیگم کے گھر میں ان کی آمد و رفت بلا جھجھک جاری تھی۔
اُدھر بلقیس بیگم کو اپنی بیٹی کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ محلے والی عورتوں کے اصرار پر ان کے ہمراہ ان کی تیاری کے لیے بازاروں کے چکر کاٹنے پڑرہے تھے۔ آج اسی سلسلے میں نسرین اور رضیہ نے جو ان کی سب سے بہترین سہیلیاں تھیں جب شادی کے لیے اپنی اپنی پسند کے سوٹ لیے تو بلقیس بیگم نے ساتھ ہی میچنگ جیولری کا مشورہ بھی دے ڈالا۔
نسرین مسکراتے ہوئے بولی ارے بلقیس آپا میں تو اپنی بھانجی کی شادی پر اپنا بھرا ہوا سونے کا سیٹ پہنوں گی یوں تو گولڈ کی اور بھی کافی جیولری ہے مگر میرا وہ بھاری سیٹ اس شادی کے سوٹ پر الگ ہی بہار دکھائے گا۔ نسرین کی منصوبہ بندی دیکھتے ہوئے رضیہ کون سا پیچھے رہنے والی تھی جو اپنے لیے ایک نگینوں کا سیٹ منتخب کررہی تھی۔ اس نے اچانک نگینے کا سیٹ واپس رکھتے ہوئے جھٹ بولا کہ پھر تو میں بھی اپنا سونے کا سیٹ ہی پہنوں گی۔
ان کی باتیں سن کر بلقیس بیگم نے اپنا خلوص بھرا مشورہ دے ڈالا کہ ارے باؤلی ہوئی ہو کیا تم دونوں، آج کل حالات دیکھے ہیں؟ ان حالات میں سونے کے زیور گھر سے لاد کر نکلو گی؟ رات میں پتا نہیں رخصتی کے بعد کتنا وقت ہوجائے اور یوں سونے سے لدے ہوئے واپسی؟ نہ بھیّا میں تو یہ بیوقوفی کبھی نہ کروں۔ بلقیس بیگم کا دل کو لگتا مشورہ دیکھ کر نسرین اور رضیہ ان کے خلوص کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے ایک بار پھر سے اپنے کپڑوں کی میچنگ کے سیٹ دیکھنے لگیں۔
یوں شادی کا بھی دن آن پہنچا اور بلقیس بیگم کے محلے کی تمام قریبی سہیلیاں اپنے اپنے گھروں پر تالا ڈال کر بلقیس بیگم کے اپنے گھر والوں کے پہنچنے سے پہلے خود ہال پہنچ گئیں۔ کچھ عورتوں نے بلقیس بیگم سے یہ شکوہ بھی کیا تھا کہ آپا محلے کا قریبی ہال چھوڑ کر دوسرے علاقے کے ہال میں شادی کی کیا ضرورت پڑی؟ تو بلقیس بیگم نے جواب دیا تھا ’ارے بہن اس تاریخ کو محلے کا ہال ہی دستیاب نہیں تھا کیا کرتی‘۔
لیکن ابھی ہال جاتے ہوئے ہی نسرین کی نظریں محلے کے قریبی ہال پر پڑیں تو اس نے تاریکی میں ڈوبے ہال کو دیکھ کر رضیہ کو ٹہوکا دیا کہ ارے یہاں تو آج کوئی تقریب نہیں ہورہی۔ رضیہ اسے مطمئن کرتے ہوئے بولی ارے ممکن ہے بیچارے فنکشن والوں کا کسی وجہ سے عین وقت پر پروگرام ملتوی ہوگیا ہو۔
اُدھر ہال کو دیکھ کر لگتا تھا کہ محلے کے سارے ہی نوجوان آج اس تقریب کے لیے جمع ہوگئے ہیں اور دلہن کے ساتھ سجی سنوری بلقیس بیگم کو دیکھ کر حاجی رمضان کا دل سینے میں الگ اتھل پتھل ہورہا تھا۔ وہ تو خیالوں میں اسی ہال کو اپنی شادی کے لیے منتخب کرچکے تھے۔
بلآخر رخصتی کی گھڑی آن پہنچی اور پہلی بار یہ دیکھنے کو ملا کہ کھانے کے بعد بھی کسی نے اپنے گھر کی راہ نہیں لی حالانکہ اتنے کم افراد کی تقریب میں بھی بلقیس بیگم نے فقط بریانی اور کھیر کا تکلف کیا تھا جس کو محلے والے ان کی بیوگی اور کوئی کمانے والا نہ ہونے پر نظر انداز کرگئے تھے۔
رخصتی تک محلے والوں کے رکے رہنے کی وجہ بلقیس بیگم کا خلوص بھی تھا جو لڑکے والوں کی جانب سے 15، 20 لوگوں کو فرداً فرداً یہ کہہ کر ملواتی رہی تھیں کہ آپ کو تو پتا ہے خاندان کے نام پر میرا کوئی نہیں بس تو یہ محلے والے ہی اب تو میرے اپنے ہیں۔ بھلا اس کے بعد کس کے لیے ممکن تھا کہ رخصتی سے قبل اپنے گھروں کو جائے؟ اللہ اللہ کرکے رخصتی ہوئی تب جاکر بلقیس بیگم نے محلے والوں کو یہ کہہ کر جانے کی اجازت دی کہ ’رات کافی ہوگئی ہے آپ لوگ چلیں ہم ماں بیٹیاں بس ہال کی ضروری چیزیں نمٹا کر آتے ہیں‘۔
محلے والوں کے جانے کے بعد بس درجن ڈیڑھ نوجوان ہی بچے تھے ان کو بھی ان کی لڑکیوں نے الگ الگ لے جاکر اداؤں بھری مسکراہٹ سے گھر جانے کی درخواست کی کہ بس اب گھر جائیں ایسا نہ ہو ہماری شادی سے قبل ہی محلے میں باتیں بننا شروع ہوجائیں یوں چار و ناچار لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
ہال سے جب یہ نوجوان اپنے گھروں کو پہنچے تو دیکھا گلی میں ایک الگ ہی گہما گہمی ہے۔ ہر دوسرے گھر سے شور یا رونے کی آوازیں آرہی تھیں جہاں بیک وقت محلے کے 7 گھروں میں باقاعدہ صفائی کردی گئی تھی یعنی زیور، کپڑے اور گھر کی دیگر قیمتی اشیا لوٹنے والوں نے کچھ نہیں چھوڑا۔
اب محلے والے آپس میں یہ کڑیاں جوڑنے میں مصروف تھے کہ ہم بارات میں گئے تو کیا یہاں چوروں کی بارات اتری تھی جو اتنے سارے گھروں کا ایک ہی وقت میں صفایا کردیا گیا۔ اس واقعے میں سب سے زیادہ نقصان میں حاجی رمضان رہے تھے جنہوں نے بلقیس بیگم کے مشورے کے تحت اپنے ڈیپارٹمنٹل اسٹور نما کریانے کی دکان کی ساری جمع پونجی رات کو گھر میں رکھنا شروع کردی تھی۔
مزید پڑھیے: افسانہ: طوفان کی دستک
اسی دوران روتی ہوئی نسرین کی آواز مجمع میں گونجی ارے سب کو اپنی اپنی پڑی ہے کوئی بیچاری بلقیس آپا کے گھر کی خبر لے، ان کا تو شادی کا گھر ہے، چوروں نے تو ابتدا ہی وہاں سے کی ہوگی۔ نسرین کی بات پر تمام نوجوان بلقیس بیگم کے گھر کی طرف دوڑے جس کے دروازے پر پڑے تالے کو جوں کا توں دیکھ کر سب نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن محلے کی ایک عورت بلقیس بیگم کے گھر کا تالا سلامت دیکھ کر بولی ’ارے مگر یہ لوگ ابھی تک آئے کیوں نہیں ہیں؟ رات کے 3 بج رہے ہیں۔ کیا ابھی تک رخصتی چل رہی ہے گنتی کے تو مہمان تھے؟'
رمضان صاحب نے التجا کی کہ بلقیس بیگم کا جوان بچیوں کا ساتھ ہے تو 2، 4 لڑکے انہیں جاکر لے آئیں۔ محلے والوں پر اصل قیامت اس وقت ٹوٹی جب ان لڑکوں نے آکر کہا کہ چوکیدار بول رہا ہے ہال تو کب کا بند ہوگیا ہے اور تمام لوگ جاچکے ہیں اور اب محلے والوں کو جن چیزوں پر پہلے دھیان دینا تھا اس پر اب دھیان دے رہے تھے جیسے بلقیس بیگم کے گھر جب کوئی مرد نہیں تھا اور ان کی کوئی لڑکی کہیں ملازمت بھی نہیں کرتی تھی تو آخر ان کے شاہانہ اخراجات کیسے چل رہے تھے؟ تبھی لڑکوں کو دھیان آیا کہ کب سے چلتی ہوئی عاشقی میں بلقیس بیگم کی بیٹیوں نے ان کے ہزار بار مانگنے پر بھی کبھی اپنی کوئی فوٹو نہیں دی اور آج شادی کی تقریب میں جو 2 نوجوان ان کی فوٹو اپنے ہمراہ لینے میں کامیاب ہوئے تھے ان کے موبائل بھی لڑکیوں نے الگ الگ لے جاکر یہ کہہ کر رکھ لیے تھے کہ ’میرا موبائل آف ہوگیا ہے اپنا دے جائیں صبح واپس کردوں گی‘۔
اس بات پر بھی سب کا دھیان اب گیا کہ آخر بلقیس بیگم کے گھر میں کچھ ضروری اشیا کے علاوہ کوئی سامان کیوں نہیں تھا، سوائے ایک صوفہ سیٹ اور قالین کے۔ جب بھی بلقیس بیگم سے اس متعلق بات کی گئی تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ بار بار کرائے کے گھر بدلنے پر جتنا زیادہ سامان ہو اتنی زیادہ پریشانی ہوتی ہے۔ لیکن جس بات پر سب نے اپنا سر پیٹا وہ یہ کہ انہوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنے گھروں میں یہ چوری کروائی۔ یعنی جب بلقیس بیگم اپنے گھر کے تالے میں لگانے کو ان کے گھروں کی چابیاں مانگتی پھر رہی تھیں۔
آہ و پکار کے اس عالم میں اگر کسی گھر میں کوئی چین کی نیند سو رہا تھا تو وہ جعفر صاحب اور بابو بھائی کے گھر والے تھے۔
ندیم جاوید عثمانی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ کے مشاغل میں پڑھنا اور لکھنا اولین ترجیح ہے۔ تحریر نگاری کے ساتھ شاعری کرنے کا بھی شوق ہے، مگر خواہشمند ہیں کہ مستقبل قریب میں قارئین انہیں بحثیت سنجیدہ اور مزاح نگار کے روپ میں پہچانیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔