نقطہ نظر

چھوٹے لڑکوں کا بڑا کمال

محض اس جیت پر رُکنا زیادتی ہوگی۔ اس لیے فتح کے چند خوشگوار پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔

17 سالوں سے جس جیت کا انتظار کیا جارہا تھا، بالآخر وہ مل گئی۔ ممکن ہے یہ 17 سال مجھے لکھنے اور آپ کو پڑھنے میں بہت کم لگ رہے ہوں لیکن یہ ایک طویل دورانیہ ہے، اتنا طویل کہ تاریخ میں چند ہی ایسے کھلاڑی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اتنا طویل کیریئر پایا ہو۔

ویسے تو ہمارے لیے یہی خوشی کی خبر تھی کہ ٹیسٹ کرکٹ کا ایک بڑا نام، یعنی جنوبی افریقی ٹیم نے طویل عرصے بعد ان مشکل حالات میں پاکستان کا دورہ کیا۔ لیکن اس زبردست کامیابی نے تو جیسے ہماری اس خوشی کو دوبالا کردیا۔

لیکن محض اس جیت پر رُکنا اور آگے کے بارے میں نہ سوچنا زیادتی ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ٹیسٹ میں ملنے والی فتح کے چند خوشگوار پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے اس پر بھی کچھ بات کرلی جائے کہ مستقبل کے حوالے سے ہمیں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

نوجوان کھلاڑیوں پر بھروسہ

جب نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ٹیسٹ ٹیم کا اعلان کیا تو ان پر کافی تنقید ہوئی۔ تنقید ناجائز بھی نہیں تھی کہ پہلی بار 9 ایسے کھلاڑیوں کو اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا تھا جنہوں نے اس سے پہلے کبھی ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔

اس تنقید کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کس طرح شان مسعود، حارث سہیل اور محمد عباس جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے اچانک باہر کیا جاسکتا ہے جو ٹیسٹ کرکٹ میں اچھا تجربہ رکھتے ہوں۔ لیکن محمد وسیم کی خوش نصیبی ہی سمجھیے کہ جن کھلاڑیوں پر انہوں نے بھروسہ کیا، وہ سب چیف سلیکٹر کے بھروسے پر پورا اترے اور ایک مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں یادگار کامیابی حاصل کی۔

چیف سلیکٹر محمد وسیم سے ایک گزارش

یہ بات تو یقینی تھی کہ جن 9 نئے کھلاڑیوں کو اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا تھا، ان سب کو اس سیریز میں موقع نہیں ملے گا۔ ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ جن کو موقع ملے گا، ضروری نہیں کہ وہ سب کامیاب بھی ہوسکیں اور عمران بٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے جو پوری سیریز میں صرف 36 رنز ہی بناسکے۔

اس لیے چیف سلیکٹر محمد وسیم سے گزارش ہے کہ آپ ماضی کے افراد کی طرح جلد باز ہونے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کیجیے گا۔ یعنی جن کھلاڑیوں کو اس بار موقع نہیں مل سکا، انہیں موقع دیے بغیر منظر سے غائب مت ہونے دیجیے گا۔

ماضی میں ایسا کئی بار ہوا ہے، بلکہ حال ہی میں کاشف بھٹی کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ گزشتہ برس جب قومی ٹٰیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو 34 سالہ کاشف بھٹی کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا، لیکن بغیر کھیلے وہ واپس لوٹ گئے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ انہیں وہاں کوئی موقع نہیں ملا، بلکہ اصل پریشانی یہ ہے کہ دورہ نیوزی لینڈ کے لیے جب 35 کھلاڑیوں کا انتخاب ہوا تو چیف سلیکٹر مصباح الحق نے ناجانے کن وجوہات کی بنا پر کاشف کو نظر انداز کردیا۔

اس لیے محمد وسیم صاحب، اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ جن جن کھلاڑیوں کو آپ نے منتخب کرکے یہ امید دلائی ہے کہ وہ قومی ٹیم کی نمائندگی کرسکتے ہیں، انہیں کم از کم ایک موقع ضرور دیجیے گا۔

دباؤ میں کمال کرنے والے کھلاڑی

فواد عالم، حسن علی اور محمد رضوان، ان تینوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اگرچہ اس سیریز سے پہلے محمد رضوان اپنی اچھی فارم کی وجہ سے تو بہت حد تک دباؤ سے باہر نکل چکے تھے، لیکن اس کے باوجود اب بھی کچھ لوگ سرفراز احمد کے دور میں جی رہے تھے، اور رضوان کی ذرا سی کوتاہی اور غلطی پر فوراً سرفراز کی یاد تازہ ہوجاتی۔ لیکن فواد عالم اور حسن علی اب بھی دباؤ کا شکار تھے۔

فواد عالم کو اب بھی انہی طعنوں کا سامنا تھا کہ جس کو ٹھیک سے کھڑا ہونا نہ آتا ہو ، اس پر بھلا کیا بھروسہ کیا جائے، لیکن کراچی میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں جن مشکل حالات میں فواد نے سنچری اسکور کی، وہاں سے معاملات نے کروٹ لی، اور اب ہر خاص و عام یہ سمجھ گیا ہے کہ گزشتہ 10 سال اس کھلاڑی کو موقع نہ دینا بڑی زیادتی تھی۔

دوسری طرف اگرچہ حسن علی قائداعظم ٹرافی میں زبردست کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہوئے تھے، مگر پہلے ٹیسٹ میں انتہائی اوسط کارکردگی کے بعد وہ زبردست تنقید کی زد میں آئے۔

خیال تھا کہ شاید اگلے میچ میں انہیں موقع نہیں دیا جائے گا، لیکن کوچ مصباح الحق نے یہاں ٹھیک فیصلہ کیا اور حسن علی پر بھروسہ کرتے ہوئے واضح انداز میں کہہ دیا تھا کہ حسن علی ابھی کم بیک کررہے ہیں، ایک میچ سے کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کاش مصباح الحق یہ رائے ہر اس کھلاڑی کے لیے بھی رکھتے، جو انہیں پسند نہیں ہے۔ لیکن خیر، حسن علی مصباح الحق اور پوری ٹیم انتظامیہ کے بھروسے پر پورا اترے اور گزشتہ 15 سالوں میں محمد عباس کے بعد ایک ٹیسٹ میں 10 وکٹیں لینے والے قومی ٹیم کے دوسرے فاسٹ باؤلر بن گئے ہیں۔

ٹیسٹ چیمپئن شپ کی رینکنگ میں بہتری

ٹیسٹ چیمپئن شپ دنیائے کرکٹ کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی تھی، اور ہر ٹیم نے اس میں کامیابی کے لیے بہت کوششیں کیں، لیکن بدقسمتی سے قومی ٹٰیم ابتدا سے مشکلات کا شکار رہی اور جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے پہلے وہ اس رینکنگ میں 7ویں پوزیشن پر تھی۔

لیکن اس ٹیسٹ سیریز میں کامیابی کے بعد اچھی خبر یہ ہے کہ قومی ٹیم 8 پوائنٹس کی بہتری کے ساتھ اب اس رینکنگ میں 5ویں پوزیشن پر آچکی ہے، جبکہ مہمان جنوبی افریقہ جو پہلے 5ویں نمبر پر براجمان تھی، اب وہ چھٹے نمبر پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جنوری 2017ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اس رینکنگ میں قومی ٹیم ابتدائی 5 ٹیموں میں شامل ہوئی ہے۔

بابر اعظم کو خصوصی مبارکباد

ویسے تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز بطور کپتان بابر اعظم کے لیے پہلی سیریز ہونی تھی، لیکن انجری کے سبب ایسا نہیں ہوسکا اور یوں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں بابر بطور کپتان پہلی مرتبہ میدان میں اترے۔

ان پر اس سیریز کے لیے کئی حوالوں سے دباؤ تھا۔ پہلی وجہ تو قومی ٹیم کی مسلسل خراب کارکردگی تھی۔ پھر دوسری وجہ یہ کہ گھر پر ایک ایسے حریف سے مقابلہ تھا جس سے گزشتہ 17 سالوں میں کوئی بھی سیریز ہم نہیں جیت سکے تھے۔ لیکن اچھی بات یہ رہی ہے کہ بابر نے بطور کپتان ان مشکل حالات کا اچھے طریقے سے سامنا کیا اور بروقت ٹھیک فیصلے کرکے ایک بڑا معرکہ سر کیا، جس پر صرف وہ ہی نہٰیں بلکہ پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔

آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔