پاکستان

افغان امن معاہدے میں پاکستان کے لیے 'نیا کردار' ممکن ہوسکتا ہے، امریکی تجزیہ کار

جو بائیڈن کے جائزے کے نظریے کو دیکھتے ہوئے پاکستان بحالی کے معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں دوبارہ تعاون کرے، ڈاکٹر بارنیٹ آر روبن

لاہور: اوباما انتظامیہ کے سابق مشیر ڈاکٹر بارنیٹ آر روبن امریکی صدر جو بائیڈن کے امریکا-افغان معاہدے پر نظر ثانی میں پاکستان کے لیے ایک 'نئے' ممکنہ کردار کو دیکھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیو یارک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعاون کے مرکز کے سربراہ کے مطابق 'جو بائیڈن کے جائزے کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے وقت آگیا ہے کہ پاکستان امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا، جنگی قیدیوں کی واپسی، جنگ بندی، اقوام متحدہ کی طالبان پر پابندیوں اور مستقبل میں سیاسی روڈ میپ، جس کی وجہ سے افغانستان میں عبوری حکومت آئے گی، کی بحالی کے معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں دوبارہ تعاون کرکے امریکی علاقائی قوتوں کی حمایت کے ساتھ امریکا-افغان طالبان امن معاہدے میں اپنا اینکرنگ کا کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں: بائیڈن انتظامیہ میں افغان امن عمل کا مستقبل کیا ہوگا؟

امریکا کی نئی جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغان امن معاہدے کو کالعدم قرار نہ دیے جانے کی پیش گوئی کرتے ہوئے بارنیٹ آر روبن نے ایک 'مختصر وقفے' کی پیش کش کی جس سے تمام شراکت داروں کو دوبارہ مذاکرات کا موقع ملے گا، 'اس جذبے کے تحت کے معاہدوں میں طے شدہ بینچ مارک اور دیگر اہداف مکمل طور پر برقرار رہیں'۔

انہوں نے تھنک ٹینک سوچ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ویبنار کے دوران کہا کہ 'بہتر ہوگا کہ جب امریکی فوجی دستے اپنی جگہ پر ہوں تب ہی سیاسی منتقلی کا عمل ہو'۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ 'یہ وہ مرحلہ ہے جب پاکستان اور بقیہ خطہ بھی شامل ہو، امکان ہے کہ طالبان امریکی فوجیوں کے انخلا میں تاخیر کا مقابلہ کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر امریکا مشترکہ جامع پلان آف ایکشن یا یو ایس ایران جوہری معاہدے کو دوبارہ شروع کرنے کے بعد اہم ممالک پاکستان، چین، روس اور ایران کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے اور تمام علاقائی پلیئرز کا امریکی فوجوں کے انخلا کے ساتھ مستقل منتقلی کے لیے متفقہ حیثیت حاصل ہو تو یہ زیادہ امکان ہے کہ طالبان اس پر راضی ہوجائیں گے'۔

سوچ کے چیئرمین محمد مہدی نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان اور امن معاہدے میں گیم بدلنے والا کردار ہے اور اگر نئی امریکی انتظامیہ نے ملک میں بھارت کی شمولیت اور افغانستان میں پاکستانی طالبان کے عنصر سے متعلق خدشات کو نظر انداز کیا تو یہ تشویش کی بات ہے۔

انہوں نے واشنگٹن کو مسئلہ کشمیر پر نئی دہلی کو شامل کرتے ہوئے نہیں دیکھا کیونکہ 2019 کے بعد اسلام آباد نے خود اس مسئلے کو بعد میں غور کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت اور طالبان مذاکرات میں اہم پیشرفت، ابتدائی معاہدے کا اعلان

کالم نگار سلیم صافی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ امریکا اور طالبان کے معاہدے کا مقصد افغانوں کو فائدہ نہیں پہنچانا ہے، جو جنگ زدہ ملک میں قتل و غارت کا سامنا کر رہے ہیں۔

کالم نگاروں الطاف حسین قریشی اور حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ جو بائیڈن ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظریہ اپناتے ہوئے علاقائی اور بین الاقوامی امن کو فروغ دینے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن کو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی بحالی کی کوشش کرنی چاہیے۔

سابق ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ نذیر حسین نے کہا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے وکالت کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں یقین ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرے گی اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد کرے گی جو خطے میں عدم استحکام کا باعث ہے'۔

مخالفت کے باوجود خیبرپختونخوا کا ٹرانسمیشن کمپنی کے لیے لائسنس پر زور

سپریم کورٹ سے ریفرنس مسترد ہوا تو اوپن ووٹ کیلئے جاری آرڈیننس ’ختم‘ ہوجائے گا، حکومت

'اقوامِ متحدہ نے افغانستان سے خطرات کے پاکستانی مؤقف کی تائید کردی'