شہباز شریف اب لندن سے بھی منی لانڈرنگ کی مہر لگوائیں گے، شہزاد اکبر
معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ڈیلی میل کے خلاف شہباز کی جانب سے دائر ہتک عزت کا مقدمہ ابھی شروع ہوا ہے تو یہ جیت کیسے گئے اور اب یہ منی لانڈرنگ کی لندن سے مہر لگوا کر آئیں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف نے ڈیلی میل پر ہتک عزت کا مقدمہ کیا ہوا تھا جس کی لندن میں سماعت تھی۔
مزید پڑھیں: دانیال عزیز کا شہزاد اکبر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان
انہوں نے مقدمے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ڈیلی میل، ڈیوڈ روز، شہزاد اکبر اور عمران خان پر مقدمہ کریں گے، 75فیصد وعدہ ٹھس ہو گیا اور انہوں نے صرف ڈیلی میل اور ڈیوڈ روز پر مقدمہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈیلی میل کو نوٹس بھیجا کہ آپ معافی مانگیں ورنہ ہم آپ کو ہتک عزت کا نوٹس بھیجیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اپنی خبر پر قائم ہیں، ہم معافی نہیں مانتے، کافی عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا اور سب سے پہلے اس کی آن لائن سماعت کی گئی۔
معاون خصوصی نے بتایا کہ اس سماعت میں ڈیلی میل کے وکلا نے کہا کہ پہلے یہ واضح کردیا جائے کہ ہمیں کس چیز کا جواب دینا ہے اور کس چیز کا جواب نہیں دینا، اس سماعت میں اس بات کا فیصلہ ہونا تھا کہ جب کوئی عام قاری اس بات کو پڑھتا ہے تو اسے کیا سمجھ میں آتا ہے، وہ کیا تاثر لیتا ہے اور عام آدمی نے کیا تاثر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جج نے کہا کہ عام آدمی نے آرٹیکل پڑھ کر یہ تاثر لیا کہ شہباز شریف اور ان کا خاندان کرپٹ سرگرمیوں اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے اور دوسرا تاثر یہ دیا کہ شہباز شریف کے داماد علی عمران نے زلزلے زدگان کی امداد کے لیے آنے والے پیسوں میں مالی خوردبرد کی۔
یہ بھی پڑھیں: 22 'غیر قانونی’ املاک واگزار کرالی گئیں، مشیر احتساب
انہوں نے کہا کہ جج نے کہا کہ یہ آرٹیکل پڑھ کر یہ تاثر جاتا ہے کہ شہباز شریف اور ان کا خاندان منی لانڈرنگ میں ملوث ہے اور ان کے داماد نے رقم میں خوردبرد کی تو اگر ڈیلی میل اس خبر میں موجود مواد کو ثابت نہیں کر پاتا تو یہ ہتک عزت ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ٹرائل شروع ہونا ہے کہ لیکن یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے شہباز شریف ڈیلی میل کے خلاف ہتک عزت کا کیس جیت گئے تو شہباز شریف اور ان کے چاہنے والوں کے لیے عرض ہے کہ یہ درست رپورٹنگ نہیں تھی، شہباز شریف کا کیس شروع ہوا ہے تو یہ جیت کیسے گئے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مریم نواز اور شہباز شریف کے خاندان کو ڈیلی میل پر اتنا غصہ کیوں ہے، بڑی واضح سی بات ہے کہ چاچو نے 7ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے، اب یہ جاکر لندن سے اس پر مہر لگوا کر آ جائیں گے، ان پر احتساب عدالت میں منی لانڈرنگ کی فرد جرم عائد ہو چکی ہے اور ان کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ سے مسترد ہو چکی ہے، ان کے صاحبزادی اسی کیس میں سپریم کورٹ سے منہ کی کھا کے واپس آ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سادہ سے حقائق ہیں، شہباز شریف اور ان کے خاندان نے 7ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی، اس میں منظور پاپڑ والے جیسے لوگوں کے نام تھے جو کبھی لاہور سے آگے نہیں گئے ہوں گے وہ بظاہر دکھائے کہ انہیں لندن سے لاکھوں ڈالرز بھیج رہے ہیں، وہ دستاویزی ثبوتوں سے ثابت ہو چکا کہ وہ سب جعل سازی تھی۔
مزید پڑھیں: مریم نواز نے کھوکھر برادران سے زمین واگزار کرانے کے آپریشن کو ’سیاسی انتقام‘ قرار دے دیا
ان کا کہنا تھا کہ تین ملزمان اس مقدمے میں پلی بارگین کر کے ان کے خلاف سلطانی گواہ بن گئے ہیں اور ان کے داماد علی عمران نے بھی زلزلہ زدگان کے لیے برطانیہ سے بھیجے گئے فنڈ میں خوردبرد کی، ان کے داماد علی عمران کے بارے میں نوید اکرم نے کہا کہ وہ فنڈز کی خورد برد میں ملوث ہیں، اس کیس میں 499 ملین اور 131ملین کی خورد برد علی عمران نے کی جس کی املاک بازیاب ہو چکی ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر شہباز شریف کو پھر چیلنج کرتا ہوں کہ اگر آپ میں ہمت ہے تو لندن میں مجھ پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کریں، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔
انہوں نے کہاکہ صوبہ پنجاب میں قبضہ مافیا سے 210ارب روپے کی اراضی واگزار کرائی جا چکی ہے، ان کے دور حکومت میں قبضہ مافیا نے سرکاری سرپرستی میں سرکاری وسائل پر قبضہ کیا، مسلم لیگ کے 36رہنماؤں سے 24ارب روپے کی املاک واگزار کرائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دانیال عزیز کے والد نے 1961میں 2330کنال سرکاری اراضی سلانوالی میں20 سالہ لیز پر لی، 1981 میں یہ لیز ختم ہو گئی تھی جس پر انہوں نے دیوانی عدالت میں مقدمہ دائر کیا، پنجاب حکومت نے 1990میں ایک اور نئی اسکیم شروع کی جس کے تحت یہ زمین انہیں دوبارہ 10 سالہ لیز پر دے دی گئی۔
شہزاد اکبر نے مزید بتایا کہ 2000 سے 2011 تک اس زمین کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی، 2011 میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ سرکار کی زمین ہے اور اس پر الاٹی کا کوئی حق نہیں تاہم یہ زمین ان کے قبضہ میں رہی اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی، دسمبر 2018 میں اسسٹنٹ کمشنر سلانوالی نے ریکارڈ درست کرتے ہوئے ان پر 408ملین روپے کا جرمانہ کیا، 2019 میں وہ سپریم کورٹ میں بھی کیس ہار گئے، سپریم کورٹ نے بھی اسے سرکار کی اراضی قرار دیا اور انہوں نے غیر قانونی قبضے کے باعث 4کروڑ روپے سے زائد کا تاوان ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے طاقتور طبقہ نے سرکاری وسائل پر قبضہ کیا اور انہیں لوٹا، اگر ان سے پوچھا جائے تو یہ سیاسی انتقام کا شور مچاتے ہیں لیکن ہم ان سے عوام کا حق واپس لے کر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے۔
معاون خصوصی برائے احتساب نے بتایا کہ رجسٹرار سرگودھا یونیورسٹی نے اس اراضی پر یونیورسٹی کا کیمپس کھولنے کی تجویز دی ہے اور اس تجویز پر عمل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں دیکھا گیا کہ مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے عدالتی فیصلوں کی من پسند تشریح کی جو بعد میں غلط ثابت ہوئی، اس کیس میں بھی انہوں نے اس طرح تاثر دیا کہ وہ کیس جیت گئے ہیں حالانکہ یہ کیس کی سماعت کا پہلا مرحلہ تھا، ابھی ٹرائل ہونا باقی ہے ۔