’آپ دونوں کا جنت میں بھی ساتھ ختم نہ ہو‘ شان کا والدہ اور والد کیلئے پیغام
لیجنڈ اداکار شان شاہد نے حال ہی میں انتقال کرنے والی والدہ اور 48 سال قبل وفات پاجانے والے والد کے لیے سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ لکھتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی درخواست کی ہے۔
شان شاہد کی والدہ سابق اداکارہ نیلو بیگم 30 جنوری 2021 کو وفات پاگئی تھیں۔
والدہ کی وفات پر شان شاہد سے وزیر اعظم عمران خان سمیت کئی سیاسی، سماجی و شوبز شخصیات نے تعزیت اور دکھ کا اظہار بھی کیا تھا۔
نیلو بیگم کو 31 جنوری کو سپرد خاک کردیا گیا تھا، والدہ کے چلے جانے کے بعد شان نے ان کے لیے جذباتی پوسٹس میں انہیں اپنی کل کائنات قرار دیا تھا۔
شان شاہد نے 2 فروری کو اپنی ایک ٹوئٹ میں والد اور والدہ کی ایک ساتھ یادگار تصویر شیئر کرتے ہوئے دونوں کو پیغام دیا کہ وہ ’جنت میں ایک ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں، ان کی محبت یوں ہی سدا قائم رہے‘۔
انہوں نے والدہ اور والد کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ دونوں لمبی واک پر ایک ساتھ جائیں اور لمحات کا خیال کیے بغیر ایک ساتھ محبت بھری زندگی گزاریں۔
ساتھ ہی اداکار نے لکھا کہ جس طرح والد کے 48 سال قبل ہی چلے جانے کے باوجود والدہ اور والد کی محبت ختم نہیں ہوئی تھی، اسی طرح اب بھی ان دونوں کی محبت ختم نہ ہونی چاہیے۔
شان شاہد نے 3 فروری کو اپنی ایک اور ٹوئٹ میں والدہ کے لیے جذباتی پیغام لکھا کہ وہ ان کے لیے والد بھی تھیں۔
اداکار کے مطابق والد کے چلے جانے کے بعد والدہ نے انہیں باپ کی طرح پالا، وہ ان کے ہر اٹھنے والے قدم پر ان کے ساتھ رہیں، وہ جب بھی کسی منزل کے سفر پر چلے، والدہ ان کی منزل کے اختتام پر کھڑی ہوکر مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کرتی رہیں۔
انہوں نے لکھا کہ والدہ کی جانب سے کہی گئی ہر بات ان کے لیے قانون بن گئی اور ہر وہ سفر جہاں انہوں نے والدہ کو دیکھا، اسے انہوں نے منزل بنا لیا۔
خیال رہے کہ شان شاہد کی والدہ اور والد دونوں اداکار تھے اور ان کے والدین نے 1965 میں شادی کی تھی۔
ان کی والدہ نیلو بیگم کا اصل نام سنتھیا الیگزینڈر فرنانڈز تھا اور وہ متحدہ ہندوستان کے صوبے پنجاب اور حالیہ پاکستان کے ضلع سرگودھا کے قصبے بھیرہ میں مسیحی خاندان میں 1940 میں پیدا ہوئی تھیں۔
شان شاہد کی والدہ نے کم عمری میں اداکاری کی شروعات کی اور انہوں نے 1956 میں ہولی وڈ فلم بھوانی جنکشن کے ذریعے فلمی صنعت میں قدم رکھا تھا۔
بعد ازاں 1957 میں انہوں نے پاکستان فلم ’سات لاکھ‘ میں بھی کام کیا اور انہیں اسی فلم کے گانے 'آئے موسم رنگیلے سہانے' سے شہرت ملی اور انہیں ایک آئیکون کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
ان کی شہرت کو دیکھتے ہی اس وقت کے اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان (نواب آف کالاباغ) نے 1964 کو ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ گورنر ہاؤس میں آکر شہنشاہ ایران کے سامنے رقص کریں، جس کا انہوں نے انکار کردیا تھا۔
ان کے انکار پر گورنر نے ان کے پاس کارندے بھی بھیجے اور زبردستی کیے جانے پر اداکارہ نے خودکشی کی کوشش بھی کی مگر ان کی زندگی بچا لی گئی۔
بعد ازاں 1965 میں صحافی و لکھاری ریاض شاہد نے ان سے شادی کی تو انہوں نے مذہب اسلام قبول کیا اور اپنا نام عابدہ رکھا، تاہم اسی سال اداکارہ نے شوہر کی جانب سے بنائی گئی ’زرقا‘ میں کام کیا، جس میں ان کا نام ’نیلو‘ تھا۔
اسی فلم میں حبیب جالب کی لکھی گئی نظم ’رقص زنجیروں میں رہ کر بھی تو کیا جا سکتا ہے‘ گانے سے ان کی شہرت مزید بڑھ گئی، مذکورہ فلم اور گانا پاکستانی سیاست اور اداکارہ پر غیروں کے سامنے رقص کرنے کے دباؤ پر ہی بنائی گئی تھے۔
اس فلم کے بعد ہی ان کا نام نیلو بیگم پڑا اور آگے چل کر جب انہیں پہلی بیٹی ہوئی تو انہوں نے بیٹی کا نام زرقا رکھا۔
نیلو بیگم کے شوہر فلم ساز ریاض شاہد بلڈ کینسر کے باعث 1978 میں چل بسے تھے جب کہ اداکارہ 30 جنوری 2021 کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔