ماؤنٹ سینائی کے ایشکن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں کہا گیا کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے بعد لوگوں کی جانب سے زیادہ مضر اثرات کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تاہم کووٖڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد میں یہ ردعمل کچھ مختلف ہوتا ہے، ان میں نہ صرف ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد ہی مضر اثرات بشمول تھکاوٹ، سردرد، ٹھنڈ لگنا، بخار، مسلز اور جوڑوں میں تکلیف وغیرہ زیادہ ہوتے ہیں بلکہ ان میں اینٹی باڈیز کی شرح بھی بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن جاری کیے گئے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار رہنے والے افراد میں ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد ہی اس بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کم از کم 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
محقققین کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں اس بیماری کا شکار رہنے والے افراد کو مناسب تحفظ کے لیے ویکسین کا ایک ڈو ہی کافی ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ اس طرح انہیں ان مضر اثرات سے بچنے میں بھی مدد ملے گی، جو دوسری خوراک کے بعد سامنے آتے ہیں۔
اس تحقیق سے ایک اور ابتدائی تحقیق کے نتائج کو تقویت ملتی ہے، جس میں دریافت کیا گیا تھا کہ جو طبی ورکرز ماضی میں کووڈ 19 کے شکار رہ چکے ہیں، ان میں دیگر کے مقابلے میں ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد اینٹی باڈیز کی زیادہ تعداد کو دیکھا گیا۔
ایشکن اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں شامل وائرلوجسٹ فلورین کریمر نے بتایا کہ ہمارے خیال میں ایسے افراد کے لیے ویکسین کی ایک ہی خوراک کافی ہے، اس سے یہ لوگ غیر ضروری تکلیف سے بھی بچ جائیں گے جس کا سامنا دوسری خوراک کے بعد ہوتا ہے، جبکہ ایک خوراک کی بھی بچت ہوگی۔
دوسری تحقیق میں 59 طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 42 ماضی میں کووڈ (علامات یا بغیر علامات) کے شکار رہ چکے تھے۔