پاکستان

سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

آئینی ترمیم پیش ہو یا نہ ہو عدالت کو تشریح کا اختیار حاصل ہے، جسٹس اعجاز الاحسن
|

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خرید وفروخت کو روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔

مزیدپڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: حکومت سندھ کی اوپن بیلٹ کی مخالفت

دوران سماعت درخواست گزار سینیٹر رضا ربانی نے دلائل دیے کہ حکومت نے آئینی ترمیمی بل لانے کا فیصلہ کرلیا ہے اس لیے آئینی ترمیمی بل پیش ہونے تک عدالت اس ریفرنس کی سماعت روک دے تاکہ دو ادارے مد مقابل نہ ہوں۔

جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس پرجواب دینے کے سو راستے ہوسکتے ہیں، ایک راستہ ہے کہ آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں، دوسرا راستہ ہے کہ آئینی ترمیم کرنا ہوگی اور دونوں صورتوں میں عدالت اور پارلیمان آمنے سامنے کیسے ہوں گئے؟

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آئینی ترمیم پیش ہو یا نہ ہو، عدالت کو تشریح کا اختیار حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: اسپیکر قومی اسمبلی کی اوپن بیلٹ کی حمایت

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بل پارلیمنٹ میں ہوتے ہوئے بھی عدالت ریفرنس پررائے دے سکتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدو فروخت روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور عام انتخابات کے ووٹ بھی الیکشن کمیشن دھاندلی کے الزامات پر کھولتا ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ووٹ فروخت کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ثابت کرنا ہوگا کہ پارٹی کےخلاف ووٹ دینے والے نے ضمیر بیچا کیا آئین کی تشریح کرنا عدالت کا کام نہیں؟

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ دینے والے 20 لوگ سامنے آئے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کی مخالفت کردی

درخواست گزار سینیٹر رضا ربانی نے کہا حکومت نے آئینی ترمیمی بل اسی حوالے سے لانے کا فیصلہ کر لیا ہےاس ریفرنس کو چلانا ایک مسئلے کے بیک وقت دو حل تلاش کرنے کے مترادف ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئینی ترمیمی بل پیش ہونے تک عدالت اس ریفرنس کی سماعت روک دے تاکہ دو ادارے مد مقابل نہ ہوں اور قانون سازی پارلیمینت کا کام ہے اور آئین کی تشریح عدالت کا اختیار ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی ترمیم پیش ہو یا نہ ہو عدالت کو تشریح کا اختیار حاصل ہے۔

بعدازاں عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

کورونا وائرس کے سبب آسٹریلیا کا دورہ جنوبی افریقہ ملتوی

آئی فون میں فیس ماسک پہننے پر بھی ان لاک کرنے کا نیا فیچر متعارف

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل ہیک کر لیا گیا