سیاسی ملزم کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ برقرار
پشاور ہائی کورٹ نے سیاسی کارکن محمد ادریس خٹک کے خلاف برطانیہ کی خفیہ انٹیلی جنس سروس کے ایک اہلکار کو پاکستان میں فوجی کارروائیوں سے متعلق 'سرکاری راز' فراہم کرنے کے مقدمے کی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کے تحت سماعت برقرار رکھی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس قیصر راشد خان اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل بینچ نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے چلائے جا رہے مقدمے میں اویس خٹک کی جانب سے اپنے بھائی ادریس خٹک کے لیے دائر درخواست کو خارج کردیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: آرمی ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ چلانے یا نہ چلانے کا تعین 13 مئی کو ہوگا
انہوں نے دعویٰ کیا کہ شہری ہونے کے ناطے ادریس خٹک پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا، درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اس غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی مقدمے کی سماعت کو قانونی چارہ جوئی کے بغیر غیر قانونی قرار دے۔
انسانی حقوق کے محافظ ادریس خٹک کو 13 نومبر 2019 کو صوابی کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں کئی مہینوں تک غیر معمولی قید میں رکھا گیا تھا۔
بعد میں وزارت دفاع نے انکشاف کیا کہ ادریس خٹک پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 2 (1) (ڈی) کے تحت فوجی حکام کی تحویل میں ہیں جسے سرکاری راز ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر درخواست گزار نے نیشنل پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری اور اپنے بھائی کی مبینہ غیر قانونی نظربندی کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور جب فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے ان کے ٹرائل کی اطلاع عام ہوئی تو فوری درخواست دائر کردی گئی۔
گزشتہ سال اکتوبر میں اس وقت کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں ایک ہائی کورٹ بینچ نے اس مقدمے کی سماعت روک دی تھی اور اس درخواست پر جواب طلب کرنے کے لیے وزارت دفاع سمیت جواب دہندگان کو نوٹس جاری کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کرنل (ر) انعام الرحیم کا کورٹ مارشل عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی ہوگا، سپریم کورٹ
درخواست پر اپنے تفصیلی فیصلے میں بینچ نے ان الزامات کو دوبارہ عائد کیا جس کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے زیر حراست ملزم پر مقدمہ چلایا تھا، اس پر سرکاری راز ایکٹ کے تحت آٹھ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ان تمام آٹھ الزامات میں ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایم آئی 6 کے عہدیدار مائیکل سیمپل سے 2009 میں مختلف تاریخوں پر بات چیت کر رہے تھے اور انہیں باجوڑ، سوات اور جنوبی وزیرستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں فوجی کارروائیوں سے متعلق مختلف معلومات فراہم کرتے تھے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبد الطیف آفریدی، ساجد آفریدی اور طارق افغان سمیت وکلا کا ایک پینل درخواست گزار کے لیے پیش ہوئے اور انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ زیر حراست فرد ایک شہری ہے اور نہ اس نے مسلح افواج کے رکن کے ساتھ مل کر کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی وہ آرمی ایکٹ کے تابع تھا اور اس پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے مقدمہ غیر قانونی ہے۔
وکیل نے اصرار کیا کہ زیر حراست شخص کے خلاف الزامات سرکاری رازوں کے انکشاف کے مترادف نہیں ہیں۔
ان کا مؤقف تھا کہ حراست میں لیے گئے شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ ایم آئی 6 کے عہدیدار مائیکل سیمپل پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے داماد ہیں اور ملک میں موجود ہونے کے باوجود اس کیس سے وابستہ نہیں ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالت کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ نے معطل کردیا
ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر جاوید نے استدعا کی کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے پاس فوجی ایکٹ کے تحت خصوصی دائرہ اختیار ہے جس میں نہ صرف فوجی اہلکار بلکہ ان تمام افراد کا احاطہ کیا جا سکتا ہے جو اس ایکٹ کے تابع ہیں۔
بینچ نے فیصلہ سنایا کہ موجودہ معاملے میں درخواست گزار کے وکلا کے دلائل یہ ہیں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت بیان کردہ الزامات کسی بھی جرم کا احاطہ نہیں کرتے، اس وجہ سے اس مرحلے پر اس کی تعریف نہیں کی جاسکتی ہے، ابھی تک کوئی ثبوت استغاثہ کی سربراہی میں نہیں آیا ہے، اس طرح اس مرحلے پر یہ استدلال قبل از وقت لگتا ہے۔
بینچ نے فیصلہ سنایا کہ زیر حراست افراد پر سرکاری راز ایکٹ کے تحت اور آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (1)(d)(ii) کے تحت جرم کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 (4) کے ساتھ سیکشن 2 (1) (d) کو پڑھا جائے تو ان دفعات کا سرکاری راز ایکٹ کے تحت فراہم کردہ مقدمے کی سماعت کے طریقہ کار پر زیادہ اثر پڑتا ہے اور لہٰذا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل زیر حراست ملزم کے ٹرائل کا اہل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: فوجی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ معطل
درخواست گزار کی اس درخواست کے بارے میں کہ جواب دہندگان کی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ ایم آئی 6 کے مبینہ ایجنٹ کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی تھی تو اس پر بینچ نے فیصلہ دیا کہ غلام عباس نیازی کے مقدمے میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے وضع کردہ قانون کے پیش نظر اس معاملے میں کچھ وزن ہے البتہ کیونکہ استغاثہ ابتدائی مرحلے میں ہے اور ہمارے سامنے کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں ہے کہ زیر حراست ملزم کو جان بوجھ کر استغاثہ نے نشانہ بنایا ہو اور مائیکل سیمپل کی پاکستان میں دستیابی کے باوجود اس کے خلاف مقدمہ نہیں چلا گیا۔
عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مقدمے کی سماعت مکمل ہونے دی جائے جس کے بعد ملزم مناسب فورم پر یہ سوال اٹھا سکتا ہے۔
بینچ نے اپنے فیصلے کی حمایت میں سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں خاص طور پر ایف بی علی کیس (پی ایل ڈی 1975 ایس سی 506) کا حوالہ دیا ہے۔