نقطہ نظر

وہ فیس بک پیغام جو اپنے اندر تاریخ کی تلخ یادیں لیے ہوئے تھا

5 دہائیوں بعد اپنی ہم جماعت سے بات کرنا بہت ہی مثبت تجربہ تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسکول کے دوران بننے والے تعلق کتنے مضبوط ہوتے ہیں

کچھ عرصہ پہلے مجھے فیس بک پر ایک پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغام ایک ایسے فرد کی جانب سے تھا جس کے ساتھ میں 1970ء کی دہائی میں راولپنڈی کے ایک اسکول میں پڑھتی تھی۔

روبینہ میری کلاس کی 2 بنگالی طالبات میں سے ایک تھی۔ وہ بہت ذہین تھی، اس کی اردو اور انگریزی کی لکھائی بھی بہت عمدہ تھی اور وہ ہمیشہ ہر مضمون میں پہلی پوزیشن لیتی تھی۔

فیس بک پر بات چیت کے بعد ہم نے تقریباً 2 گھنٹے طویل زوم کال پر ایک دوسرے سے بات کی۔ ہم نے اسٹیشن اسکول (19ویں صدی کے اواخر میں قائم ہونے والے مشنری اسکول) کی یادیں تازہ کیں۔ ہم نے مس پاؤنٹنی کو یاد کیا جو ہر صبح اسمبلی میں پیانو بجایا کرتی تھیں۔ ہم نے اپنی بھاری بھرکم پرنسپل مس امام الدین اور دیگر اساتذہ اور دوستوں کے بارے میں بات کی۔

ہماری ابتدائی بات جیت کے دوران روبینہ نے مجھے بتایا کہ 1971ء کی جنگ کے بعد اس کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کے والد ایک فوجی افسر تھے اور 1972ء میں فوجی ملازمت سے منسلک دیگر بنگالی خاندانوں سمیت روبینہ کے خاندان کو بھی شمالی علاقوں میں قائم حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ وہ ان کیپموں میں ایک سال سے زیادہ عرصے تک رہے۔ پہلے انہیں بنوں میں رکھا گیا اور بعد میں منڈی بہاالدین منتقل کردیا گیا۔

مجھے اس بات کا بہت افسوس ہوا کہ مجھے اپنی بنگالی دوست کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ قید میں تھی۔ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ میں نے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیا تھا کیونکہ 1972ء میں میرے والد کا تبادلہ ملک سے باہر ہوگیا تھا۔ جس وقت میں نے اسکول چھوڑا تھا تب روبینہ وہاں زیرِ تعلیم تھی۔ لیکن اس لاعلمی نے مجھ پر بہت اثر ڈالا کہ روبینہ اور اس جیسے کتنے ہی بنگالی خاندانوں کو ایک سال سے زائد عرصے تک حراستی کیمپوں میں قید رہنا پڑا۔

پہلا رابطہ ہونے کے کچھ دنوں بعد ہم نے زوم پر ایک دوسرے کو دیکھا۔ ہم دونوں کا ہی یہ خیال تھا کہ سامنے والا ’بالکل نہیں بدلا‘۔ اگرچہ ہماری ملاقات تقریباً 50 سال بعد ہورہی تھی لیکن حیران کن طور پر ہم باآسانی ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔

روبینہ نے اسٹیشن اسکول میں نرسری سے 7ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی اس وجہ سے اس کے حافظے میں وہاں کی کئی یادیں موجود تھیں۔ میں نے اس اسکول میں صرف 3 سال تعلیم حاصل کی اور میرے پاس وہاں کی بہت زیادہ مثبت یادیں نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے اس ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے میں بہت مشکل ہوئی اور وہاں کے کئی اساتذہ کافی سخت تھے۔

روبینہ نے ہمارے کئی ہم جماعتوں کا ذکر کیا جن میں سے اکثر کو میں بھول چکی تھی۔ ہم نے اپنے اساتذہ کو بھی یاد کیا۔ ہمارا اسکول ایک مشنری اسکول تھا اور وہاں کے اکثر اساتذہ کا تعلق مقامی عیسائی برادری سے تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری استانیوں میں سے اکثر ساڑھیاں پہنا کرتی تھیں (اور وہ بھی بہت خوبی سے)۔

لیکن ہم دونوں کو سعد ضیا نامی ہم جماعت یاد تھا۔ وہ اسکول کا سب سے زیادہ شرارتی لڑکا تھا۔ لیکن اپنی سبز آنکھوں، وجاہت اور ذہانت کی مدد سے وہ ہر مشکل سے بچ نکلتا تھا۔ اساتذہ بھی اس پر بہت دیر تک غصہ نہیں کرتے تھے۔ وہ کھیلوں میں بہت اچھا تھا اور بہت تیز دوڑتا تھا، اس وجہ سے وہ اسکول کی ایک مشہور شخصیت تھا۔

روبینہ نے مجھے سعد کے دوست کرسٹوفر ہیریسن کے بارے میں یاد کروایا۔ میرے ذہن میں بھی گلابی گالوں والے کرسٹوفر کی شکل تھی، پھر مجھے یاد آیا کہ جن دنوں میرا اس اسکول میں داخلہ ہوا تھا تو کرسٹوفر کی والدہ مس ہیریسن میری کلاس ٹیچر تھیں۔

جیسے جیسے ہم بات کرتے گئے ان تمام افراد کے چہرے میرے ذہن میں تازہ ہوتے گئے۔ مس ہیریسن ایک انگریز خاتون تھیں۔ وہ ہمیشہ شلوار قمیض میں ملبوس رہتی تھیں اور بہت اچھی اردو بولتی تھیں۔

روبینہ نے مجھ سے پوچھا کہ ’تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے پاکستانی فوج کے ایک افسر سے شادی کی ہوئی تھی‘۔ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور پھر روبینہ نے مجھے تفصیل بتائی۔ اس نے ایک مرتبہ ان کے شوہر کو دیکھا تھا۔ اس نے کہا کہ ’میرا خیال ہے وہ برگیڈیئر تھے‘، وہ مس ہیریسن کو اسکول سے لینے آئے تھے۔

روبینہ کو یہ بات اس وجہ سے یاد ہے کیونکہ مس ہیریسن کے شوہر کسی اسپورٹس کار کی طرز کی چمچماتی ہوئی گاڑی میں آئے تھے۔ مس ہیریسن گاڑی میں بیٹھیں اور اپنے شوہر کے گرد باہیں ڈال کر انہیں بوسہ دیا۔ ہمارا بچپن اور 1970ء کی دہائی میں راولپنڈی میں گزرے وہ اسکول کے دن ایک الگ ہی دنیا تھی۔

میں حراستی کیمپ کے بارے میں جاننا چاہتی تھی اس وجہ سے ہم نے اس بارے میں بات کی۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ روبینہ کے والد فوج میں ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے والد ایک ماہرِ طبعیات تھے۔ 1971ء کی جنگ اور بنگلادیش کے قیام کے بعد انہیں اور فوج سے منسلک دیگر بنگالیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔

اس نے بتایا کہ 1972ء میں بنگالی افسران کو ڈیوٹی پر جانے سے منع کردیا گیا۔ اس کے باوجود انہیں ہر صبح حاضری رجسٹر میں اپنا اندراج کرنا ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ گھر میں ہی رہتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ صرف سیکیورٹی خدشات کے علاوہ فوج میں موجود بنگالیوں کی اپنی حفاظت کے لیے بھی ہو۔ بہرحال اس کی جو بھی وجہ تھی لیکن یہ قدم روبینہ کے والد کے لیے حوصلہ شکنی کا سبب بنا۔

اسی سال اگست کے مہینے میں فوج سے منسلک ان بنگالی خاندانوں کو ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے اس وقت کے صوبہ سرحد اور آج کے صوبہ خیبر پختونخوا منتقل کردیا گیا۔ اس نے بتایا کہ ٹرین ’مری انڈس نامی بڑے سے جنکشن‘ پر رکی جہاں انہوں نے اتر کر کچھ چہل قدمی کی۔

میں نے روبینہ سے پوچھا کہ وہاں کے حالات کیسے تھے؟ اور کیا ان لوگوں کو اپنا سامان ساتھ لے جانے دیا گیا تھا؟

روبینہ نے جواب دیا کہ جانے سے پہلے انہوں نے اپنا کافی سامان فروخت کردیا تھا۔ ان کے والد نے ایک چھوٹا سا صندوق بنایا تھا جس میں انہوں نے اپنا کچھ سامان ساتھ رکھا تھا۔ ان کا کیمپ بنوں کے ایک قلعے میں تھا۔ ان گھرانوں کو قلعے کے احاطے میں ہی رہائش فراہم کی گئی تھی۔ چونکہ روبینہ کا خاندان 6 افراد پر مشتمل تھا اس وجہ سے انہیں ایک گھر دیا گیا تھا۔ انہوں نے وہاں رہنا تو شروع کردیا لیکن قلعے کے احاطے میں کوئی اسکول نہیں تھا، اس لیے روبینہ کے والد نے بچوں کو پڑھانے کے لیے حکام سے اجازت طلب کی۔ انہیں کوئی سرکاری امداد تو نہیں ملی لیکن والدین نے اپنی مدد آپ کے تحت کیمپ میں رہنے والے بنگالی بچوں کے لیے ایک اسکول شروع کیا۔

اس کیمپ میں گزارے گئے ایک سال کا کوئی تصویری ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ راولپنڈی میں ٹرین پر سوار ہونے سے پہلے ہی ان کے پاس موجود کیمرے ضبط کرلیے گئے تھے۔ اگرچہ وہ اس خاندان کے لیے ایک مشکل دور تھا لیکن روبینہ کے پاس بنوں کے کیمپ کی کئی مثبت یادیں تھیں۔ انہوں نے منڈی بہاالدین میں بہت کم عرصہ گزارا اس وجہ سے روبینہ کے پاس اس حوالے سے کوئی قابلِ ذکر یادداشت نہیں تھی۔ ان خاندانوں کو نومبر 1973ء میں واپس بنگلادیش بھیج دیا گیا تھا۔

5 دہائیوں بعد اپنی ہم جماعت اور دوست سے بات کرنا ایک بہت ہی مثبت تجربہ تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسکول کے دوران بننے والے تعلق کتنے مضبوط ہوتے ہیں اور ان ابتدائی برسوں کے تجربات کتنے اہم ہوتے ہیں۔ اس تجربے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کتنی تبدیل ہوگئی ہے۔ جس راولپنڈی کو روبینہ اور میں جانتے تھے وہ آج کے راولپنڈی سے بہت مختلف ہے۔

اس تجربے سے مجھے احساس ہوا کہ ہماری زندگیوں کے کتنے ہی سیاسی اور معاشرتی پہلو ہوتے ہیں۔ ہم صرف دوسروں سے بات کرکے اور ان کی کہانیاں سن کر معلومات کا خزانہ حاصل کرسکتے ہیں۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہوا کہ ہم ایسی کتنی ہی چیزوں کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ یہ تمام وہ چیزیں ہیں جن سے ہم اپنی جوانی میں غافل رہتے ہیں۔ ان حراستی کیمپوں کا ذکر سن کر کہ جہاں بنگالی افسران کے خاندانوں کو رکھا گیا تھا میں نے سوچا کہ ناجانے ہماری زندگیوں کی بھول بھلیوں میں تاریخ کے کتنے ہی سبق اور کتنی ہی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔

میں نے اس تجربے سے سیکھا کہ سیاسی اور جغرافیائی تقسیم بھی بنیادی تعلقات کو توڑ نہیں سکتی۔ افراد اور مقامات کے حوالے سے آپ کی مشترکہ یادیں ایک ایسے مضبوط انسانی تعلق کو جنم دیتی ہیں جو قومیت اور نسل پرستی سے بالاتر ہوتے ہیں۔


یہ مضمون 31 جنوری 2021ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

امبر خیری
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔