نقطہ نظر

حافظ سلمان بٹ: جو پاکستان فٹبال کی بہتری کا خواب لیے رخصت ہوگئے

سلمان بٹ کی انتھک محنت سے یہ پہلا پاکستانی فٹبال کلب بنا جس نے 93ء-1992ء میں ہونے والی ایشین کلبز چمپیئن شپ میں حصہ لیا۔

حافظ سلمان بٹ کی نگاہوں میں ہی ایک تیزی تھی۔ وہ ایک نظر میں کسی بھی شخص کو منجمد کرسکتے تھے۔ لیکن ان آنکھوں میں ایک درد اور ایک نامکمل خواب بھی بستا تھا۔

انہیں فٹبال کے کھیل سے عشق تھا اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اس کھیل میں نئی بلندیوں تک پہنچے۔ لیکن اب اگر پاکستان ان بلندیوں پر پہنچ بھی گیا تو سلمان بٹ اسے دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہوں گے۔

حافظ سلمان بٹ جمعرات کی شب 65 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انہیں ایک رات قبل دل کا دورہ پڑنے پر لاہور کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زیرِ علاج تھے۔ ان کی تدفین جمعے کے روز ہوئی۔ اگرچہ انہوں نے گزشتہ 3 عشرے پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) سے باہر گزارے لیکن اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے انتقال سے پاکستان فٹبال نے اپنی ایک بااثر ترین شخصیت کو کھو دیا ہے۔

وہ 1991ء سے 1994ء تک پی ایف ایف کے سیکرٹری رہے اور یہ دور بلاشبہ پاکستان فٹبال کا سنہری دور تھا۔ لیکن اپنے جوشیلے مزاج کی وجہ سے وہ دوبارہ پی ایف ایف میں واپس نہ آسکے۔ انہیں ایک حریف گروہ بنانے پر پہلے معزول کیا گیا اور پھر ان پر پابندی عائد کردی گئی۔ خود ان کے حمایت یافتہ افراد نے بھی ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔

2003ء میں جب فیصل صالح حیات پی ایف ایف کے صدر بنے تو اس کے پیچھے بھی حافظ سلمان بٹ کا ہاتھ تھا۔ وہ میاں اظہر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر خود پر لگنے والی 10 سالہ پابندی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ تاہم فیصل صالح حیات نے بھی سلمان بٹ کو پی ایف ایف میں واپس نہیں آنے دیا۔

اس کے بعد سے حافظ سلمان بٹ نے خود پر عائد پابندی ختم کروانے کی جدوجہد شروع کردی۔ انہیں امید تھی کہ فیصل صالح حیات یہ کام کرسکتے ہیں لیکن جب 2015ء میں حافظ سلمان بٹ نے فیصل صالح حیات کو ہٹانے کی کوشش کی تو فیصل صالح حیات کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ فیفا نے سلمان بٹ پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ لیکن اس وقت فیفا نے ڈان کو بتایا تھا کہ وہ ایسی کسی بھی پابندی سے ’لاعلم‘ ہے۔

لیکن اس بارے میں کوئی واضح بات سامنے نہیں آسکی۔ سلمان بٹ نے جب بھی فٹبال میں واپس آنا چاہا تو ہر بار انہیں یاد دلایا گیا کہ وہ ایک ’ناپسندیدہ شخصیت‘ ہیں۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان فٹبال کی جو کارکردگی حافظ سلمان بٹ کے دور میں تھی ویسی پھر کبھی نہیں رہی۔

اس وقت نیشنل فٹبال چمپیئن شپ کو ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا گیا تھا اور اسے 3 سال کے لیے 3 کروڑ 50 لاکھ روپے کی اسپانسرشپ بھی ملی تھی۔ جن کھلاڑیوں نے اس دور میں فٹبال کھیلی ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں اس سے بہتر وقت کبھی نہیں دیکھا۔

ان کے لیے سب سے دیرینہ کام ووہیب فٹبال کلب تھا جو انہوں نے اپنے مقتول بھائی کی یاد میں قائم کیا تھا۔ ان کی انتھک محنت سے یہ پہلا پاکستانی فٹبال کلب بنا جس نے 93ء-1992ء میں ہونے والی ایشین کلبز چمپیئن شپ میں حصہ لیا۔

گزشتہ سال ڈان سے بات کرتے ہوئے سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ ’ایک عرصے سے میرا مشن پاکستان میں فٹبال کی حالت کو بہتر بنانا ہے تاکہ ہم عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرسکیں۔ پاکستان فٹبال کو اس حال میں دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے‘۔

فیفا نے پاکستان فٹبال کے امور دیکھنے اور نئے انتخابات کروانے کے لیے نارملائزیشن کمیٹی کا تقرر کیا اور فیصل صالح حیات کو عہدے سے ہٹا دیا۔ یوں حافظ سلمان بٹ کے لیے کسی طرح پی ایف ایف میں واپسی کا امکان پیدا ہوا لیکن وقت اور بگڑتی ہوئی صحت نے انہیں اتنی مہلت ہی نہ دی۔


یہ مضمون 30 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عمید وسیم

عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔