پاکستان

قانونی تحفظات کے درمیان براڈ شیٹ کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری

قانونی ماہرین کو خدشات ہیں کہ کیا کمیشن، اسلام آباد ہائیکورٹ کی شوگر کمیشن کیس میں مقرر کردہ رہنما ہدایات پر عمل کرے گا، رپورٹ

حکومت نے قانونی ماہرین کے ان خدشات کے باوجود جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید پر مشتمل ایک رکنی کمیشن کو نوٹیفائیڈ کردیا، جن میں کہا جا رہا تھا کہ کیا براڈ شیٹ کمیشن، اسلام آباد ہائی کورٹ کی شوگر کمیشن کیس میں مقرر کردہ رہنما ہدایات پر عمل کرے گا؟

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قانونی حلقوں میں یہ خدشات بھی بڑھ رہے ہیں کہ براڈ شیٹ کمیشن ہر متاثرہ فرد کو سنوائی کا موقع فراہم کیے بغیر کس طرح آگے کی کارروائی کرے گا۔

ماہرین کو تشویش ہے کہ کیا یہ کارروائیاں مکمل ٹرائل بن جائیں گی کیوں کہ اس میں شہرت کو نقصان پہنچنا شامل ہوگا اور کیا جو اس سے متاثر ہوں گے ان کا کمیشن کی سربراہی کرنے والے جج پر اعتماد اور بھروسہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:براڈ شیٹ تحقیقاتی کمیشن کو 1990 سے میگا اسکینڈلز کی تحقیقات کا اختیار مل گیا

کمیشن مقامی اور بین الاقوامی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات اور اسکینڈل مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف سرے محل اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ان کیسز کی دوبارہ تحقیقات کرے گا جن کا ذکر برطانوی اثاثہ جات برآمدگی کمپنی براڈ شیٹ نے کیا۔

کمیشن، حکومت پاکستان کی جانب سے سال 1990 سے کی جانے والی ان قانونی کارروائیوں اور برآمدگی کی کوششوں سے متعلق واقعات اور کیسز کی شناخت کرے گا جو بیرونِ ملک غیر قانونی طور پر منتقل کیے گئے اثاثوں اور رقم کے لیے کی گئی۔

شوگر مل انکوائری کمیشن کے خلاف شوگر ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں متعدد باتیں کہی تھیں۔

مزید پڑھیں: براڈ شیٹ تحقیقاتی کمیشن کو گہرائی کے ساتھ تحقیقات کا اختیار حاصل

اس فیصلے کے مطابق اگر انکوائری کسی فرد کے بارے میں ہو تو اس کے باعث جس کی شہرت داؤ پر لگی ہو اسے سنوائی اور اپنے حق میں شواہد پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کسی شخص پر تنقید یا اس کی مذمت کرنے سے پہلے اسے ایک منصفانہ موقع ملنا چاہیے اور تجویز دی گئی کہ کسی کے خلاف منفی تنقید سے قبل اسے بھی تبصرے کے لیے مسودہ دیا جانا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ کے عمومی اور خصوصی نوعیت ہونے کا بھی فرق کیا اور کہا کہ 'اگر رپورٹ کسی شخص کی شہرت یا کردار سے مخصوص ہو تو اس شخص کو ممکنہ نتائج سے لازمی آگاہ کیا جانا چاہیے اور اسے جواب دینے کا موقع ملنا چاہیے'۔

یہ بھی پڑھیں: براڈشیٹ کمیشن: جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی پر اپوزیشن کا اعتراض

اس کے علاوہ فیصلے میں انکوائری کے دائرہ کار میں بھی فرق کردیا گیا تھا کہ کیا یہ بڑی یا چھوٹی اور کیا کسی شخص کے کردار اور شہرت کے ساتھ مخصوص ہے۔

عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ وسیع تفتیش والی عوامی انکوائریز کرتے ہوئے، وجہ کی شناخت اور ذمہ دار افراد کو محض اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شہرت کو نقصان پہنچے گا۔

وزیر داخلہ کی ہدایت پر نادرا کی 240 ترقیاں منسوخ

بڑی سیاسی جماعتیں 5 فروری کو آزاد کشمیر میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گی

لاہور: نجی یونیورسٹی کے باہر ہنگامہ آرائی کیس میں گرفتار طلبہ کا جوڈیشل ریمانڈ