زرعی قوانین کےخلاف کسانوں کی بھوک ہڑتال، نئی دہلی میں انٹرنیٹ سروس معطل
زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین اور حکام کے درمیان پرتشدد احتجاج کے چند دن بعد کسانوں نے بھوک ہڑتال کی جس کے سبب نئی دہلی اور اس کے اطراف میں انٹرنیٹ سروسز بند کردی گئی ہے۔
بھارت کے یوم جمہوریہ کے دن ہونے والے پرتشدد احتجاج کے دوران کچھ عناصر نے تاریخی لال قلعے پر خالصتان تحریک کا پرچم لہرا دیا تھا جہاں ان مظاہروں میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
مزید پڑھیں: بھارتی یوم جمہوریہ پر ہزاروں کسانوں کا نئی دہلی میں احتجاج، لال قلعے پر چڑھائی
کسان اس نئے قانون کو کارپوریٹ اور نجی شعبے کے بڑے خریداروں کے لیے فائدہ مند قرار دیتے ہوئے حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دو ماہ سے بطور احتجاج نئی دہلی کے مضافات میں ڈیرے ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
شہر کے شمالی مضافاتی علاقے سنگھو گاؤں کے قریب مرکزی احتجاجی مقام پر ہفتہ کے روز پولیس کی بھاری نفری موجود تھی جب سیکڑوں ٹریکٹر ہریانہ سے پہنچے۔
ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ کسان مہیش سنگھ نے کہا کہ بہت سے کسانوں کے گروپ گزشتہ رات سے ہی احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں، وہ اس احتجاج میں اپنی حمایت کا مظاہرہ کرنے آئے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اگلے دو دن میں زیادہ کاشتکار آئیں گے۔
بھارت کی وزارت داخلہ نے ہفتہ کے روز نئی دہلی کے مضافات میں واقع تین مقامات پر انٹرنیٹ سروسز کو اتوار کو رات 11 بجے تک مفاد عامہ میں معطل کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی کسانوں نے لال قلعہ پر خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا
جب کبھی بھی بدامنی کا ڈر ہو تو ہندوستانی حکام اکثر مقامی انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیتے ہیں البتہ دارالحکومت میں یہ اقدام غیر معمولی ہے۔
کسان رہنماؤں نے کہا ہے کہ ہفتے کی بھوک ہڑتال بھارتیوں کو دکھائے گی کہ مظاہرین حد سے زیادہ پرامن ہیں۔
احتجاجی مظاہرے کرنے والی کسان یونینز کے مشترکہ 'کسان مورچہ گروپ' کے رہنما درشن پال نے کہا کہ کسانوں کی تحریک پرامن تھی اور پرامن ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ 30 جنوری کو ہونے والے واقعات کو حق اور عدم تشدد کی اقدار کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
منگل کو یوم جمہوریہ کے موقع پر منصوبہ بندی کے تحت ٹریکٹر پریڈ اس وقت پرتشدد شکل اختیار کر گئی تھی جب کچھ مظاہرین نے پہلے سے طے شدہ راستوں سے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں اور ان کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں جنہوں نے انہیں روکنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
اس کے بعد سے مظاہرین، پولیس اور کسان مخالف نعرے لگانے والے گروپوں کے مابین پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔
مزید پڑھیں: بھارت: زرعی اصلاحات کےخلاف کسانوں کے احتجاجی مرکز پر جھڑپیں
یہ مظاہرے 2014 سے اقتدار میں موجود وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
فارم یونینز اور حکومت کے مابین بات چیت کے 11 دور بھی ڈیڈ لاک توڑنے میں ناکام رہے، حکومت نے ان قوانین کو 18 ماہ کے لیے موخر کرنے کی پیش کش کی لیکن کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون میں تبدیلی سے کم کسی بھی چیز پر احتجاج ختم نہیں کریں گے۔