مخالفت کے باوجود متعدی بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کا بل منظور
اسلام آباد: وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کی مخالفت کے باوجود پارلیمانی کمیٹی نے جمعرات کو متعدی بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کا بل 2020 متفقہ طور پر منظور کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پرائیویٹ ممبر بل اگر پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیا جاتا ہے تو اداروں اور مقامی انتظامیہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا کہ وہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کی کمیٹیوں کے فیصلوں کا انتظار کرنے کے بجائے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے فوری فیصلے کریں۔
مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی میں خواتین کے جائیداد کے حقوق ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور
یہ بل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر محمد جاوید عباسی نے 26 اکتوبر 2020 کو سینیٹ میں پیش کیا تھا اور بعد میں اس کو نیشنل ہیلتھ سروسز سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا، البتہ وزارت صحت اس بل کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) ایکٹ 2010 میں ضم کرنا چاہتی ہے۔
6 جنوری کو ہونے والی آخری میٹنگ کے دوران ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے اس پر اعتراض کیا اور دعویٰ کیا کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں نے بھی ایسے ہی بلوں کو پیش کر کے قانون سازوں کی محنت کو برباد کرنے کا وطیرہ بنا لیا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی حکومتوں کی جانب سے نجی بلوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کے 42 بل پارلیمنٹ تک نہیں آ سکے، انہوں نے الزام لگایا تھا کہ وزارت زیادہ تر نجی بلوں کی کاپی پیسٹ کرتی ہیں اور پھر انہیں سرکاری بلوں کے طور پر منتقل کردیتی ہیں۔
جمعرات کو ایم کیو ایم کی سینیٹر خوش بخت شجاعت کی زیر صدارت اجلاس کے دوران وزارت نے ایک بار پھر برقرار رکھا کہ وہ این ڈی ایم اے ایکٹ میں ترمیم کررہی ہے اور متعدد تجاویز کو پہلے ہی اس میں شامل کیا گیا ہے اور باقی بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔
تاہم بل پیش کرنے والے نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور حیرت کا اظہار کیا کہ کس طرح صحت کے مسئلے کو این ڈی ایم اے کے حوالے کیا جاسکتا ہے، اگر این ڈی ایم اے نے صحت سے متعلق امور کو نمٹانا ہے تو انہوں نے وزارت صحت اور دیگر محکموں کے وجود پر بھی سوال اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے طلبہ کو ہراسانی سے بچانے کے لیے بل منظور کرلیا
وکیل کی حیثیت سے کام کرنے والے محمد جاوید عباسی نے کہا کہ یہ مجرمانہ اور سول قوانین کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے مترادف ہو گا۔
اس بل کے بارے میں اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کمیٹی کے اجلاس کے دوران اور بعد میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صرف موجودہ قانون ویسٹ پاکستان ایکٹ 1958 ہے جس میں چار حصے ہیں جو ہیضے، اسہال اور دیگر بیماریوں سے نمٹنے کے ہیں، تاہم کووڈ۔19 نے ثابت کیا ہے کہ ایک جامع قانون کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے فیصلہ لینے والا کوئی نہیں ہے لہٰذا وزیر اعظم کی زیر صدارت وزرائے اعلیٰ کی نمائندگی کی حامل کمیٹی کو اس پر تبادلہ خیال کرنا ہوگا، میں جو قانون پیش کررہا ہوں وہ ہر پہلو پر تبادلہ خیال کرتا ہے اور اس سے محکموں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ بیرون ملک اور ملک کے اندر سے وائرس اور بیماریوں کی منتقلی روکنے کے فیصلے کرے، اس سے پتا چلتا ہے کہ ملک کے داخلی مقامات پر آئسولیشن مراکز قائم کیے جانے چاہئیں اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے کنٹرول روم ہونے چاہئیں، مزید یہ کہ اس قانونی مسودے میں سزا اور جزا کا ایک طریقہ کار موجود ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی بھی غلطی نہ کر سکے۔
جاوید عباسی نے کہا کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور نیشنل ہیلتھ سروسز کے سیکریٹری نے اتفاق کیا کہ یہ ایک اچھا بل ہے لیکن انہوں نے این ڈی ایم اے ایکٹ میں ضم کرنے پر اصرار کیا ہے۔
مزید پڑھیں: مدینہ منورہ دنیا کے صحت مند ترین شہروں میں شامل
ان کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے ایکٹ کو زلزلے سے نمٹنے کے لیے ایک آرڈیننس کے ذریعے 2005 میں نافذ کیا گیا تھا، اس میں وزیر اعظم، وزیراعلیٰ، خیبرپختونخوا کے گورنر اور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے نمائندے شامل ہیں لہٰذا اس میں وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے کوئی مہارت نہیں ہے، میں نے تجویز کیا کہ بل کی منظوری دی جانی چاہیے اور پھر صوبے اس کو اپنائیں گے۔
پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد اور ڈاکٹر سکندر مانڈھرو، پی ٹی آئی کی ڈاکٹر مہر تاج روغانی، مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی، آزاد سینیٹرز ثنا جمالی اور دلاور خان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ممبر اسمبلی سردار محمد شفیق ترین سمیت کمیٹی کے تمام اراکین نے متفقہ طور پر بل کی منظوری کا فیصلہ کیا۔
بل کو ووٹنگ کے لیے ایوان بالا کے پاس بھیجا جائے گا اور اگر منظوری دی گئی تو قومی اسمبلی میں بھیج دیا جائے گا۔