نقطہ نظر

عالمی اہمیت کی حامل ’رامسر جھیل‘ کی تباہی کیسے ہوئی؟

گاؤں والے رقم کےعوض شکار کھیلنےمیں شکاریوں کی مدد کرتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ سالوں میں پرندوں نے اچھالی جھیلوں سے منہ موڑلیا ہے

سرما کی نرم گرم دھوپ میں پرندوں سے بھری ہوئی جھیلوں نے عاشق احمد خان کو مسحور کردیا تھا۔ یہ 2010ء میں اچھالی جھیل کے خوبصورت دن تھے لیکن صرف ایک دہائی بعد اس عالمی اہمیت کی حامل رامسر جھیل کی حالت نے انہیں پریشان کردیا۔

عاشق احمد خان نے جھیل پر اپنے حالیہ دورے کے بعد تھرڈپول کو بتایا کہ ’اچھالی جھیل خشک، شکستہ اور انتہائی آلودہ ہوچکی تھی۔ حکومتِ پاکستان نے رامسر کنونشن پر دستخط کرکے اس جھیل کی دیکھ بھال کی ذمے داری قبول کی تھی مگر جھیل پر صورتحال اس کے برعکس ہے‘۔

عاشق احمد خان ماحول اور جنگلی حیات کے حوالے سے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور ماحول پر ہی کام کرنے والے ایک ادارے Ev-K2-CNR سے وابستہ ہیں۔

اچھالی جھیلوں کی بدحالی سے عاشق احمد خان اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے حکومتِ پاکستان، ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان اور دیگر متعلقہ اداروں کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے خط میں حوالہ دیا کہ پاکستان ویٹ لینڈ پروگرام حکومتِ پاکستان اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کا مشترکہ پروگرام تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اس پروگرام کے تحت 2011ء میں پاکستان نیشنل ویٹ لینڈ پالیسی اور اچھالی ویٹ لینڈز کمپلیکس منیجمنٹ پروگرام کے نام سے 2 رپورٹس تیار کی گئی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ دونوں اہم دستاویزات ابھی تک بہترین سرورق، تصاویر اور اعلیٰ کاغذ پر مشتمل ایک ’ڈرافٹ‘ ہی کی شکل میں موجود ہیں‘۔

اس خط نے اچھالی جھیل کے منیجمنٹ پلان کے حوالے سے ایک ہلچل پیدا کردی۔

اچھالی جھیلیں

اچھالی ویٹ لینڈ کمپلیکس صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب میں واقع ہے۔ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان سالٹ رینج کے پہاڑوں کے دامن میں ایک پیالہ نما وادی سون سکیسر میں واقع یہ نمکین پانی کی 3 جھیلوں اچھالی، کھبیکی اور جھلر پر مشتمل ہے جسے اچھالی ویٹ لینڈ کمپلیکس کہا جاتا ہے۔

اچھالی ویٹ لینڈز کمپلیکس کا کیچمنٹ ایریا 381 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ تینوں جھیلوں کی مجموعی سطح قریباً 12 مربع کلومیٹر ہے۔ ان جھیلوں کے گرد 13 گاؤں موجود ہیں اور حالیہ مردم شماری کے مطابق ان کی کل آبادی 69 ہزار 317 ہے۔

رامسر کنونشن نے ان جھیلوں کے مجموعے کو 22 مارچ 1996ء کو بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہ یعنی رامسر سائٹ قرار دیا تھا۔

بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے مطابق جنوبی ایشیا کی یہ واحد جھیل ہے جہاں بقا کے خطرے سے دوچار سفید سر والی مرغابی (Oxyura leucocephala) موسمِ سرما گزارتی ہے۔

اس کے علاوہ جھیل پر آنے والے دیگر پرندوں میں شاہی عقاب، گروہی ٹیٹری، لم ڈھینگ، باز، راج ہنس، مرغابی اور چٹانی بگلہ وغیرہ شامل ہیں۔ ہرن، لومڑی اور پنجاب اڑیال کا مسکن بھی یہی علاقے ہیں۔

جھیلوں کی بربادی

اچھالی جھیلوں کا یہ کمپلیکس ان جھیلوں کے اردگرد موجود سبزیوں کے کھیتوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ اس علاقے کی مخصوص آب و ہوا کے باعث یہاں موسم سے پہلے سبزیاں تیار ہوجاتی ہیں جن سے یہ کاشتکار ٹھیک ٹھاک منافع کماتے ہیں۔

یہ کاشتکار جھیل کے گرد موجود رہٹ (کنوئیں) اور ٹیوب ویل وغیرہ سے 24 گھنٹے پانی نکالتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ خشک سالی کے باعث بھی ان جھیلوں کے پانی پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔ عاشق احمد خان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ زیرِ زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے گرچکی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریجنل ڈائریکٹر (سندھ اور بلوچستان) طاہر رشید اتفاق کرتے ہیں کہ مونو کلچر بھی پانی کے بے تحاشہ استعمال کی ایک وجہ ہے۔ زیادہ تر کاشتکار گوبھی کاشت کررہے ہیں جس کے لیے بہت زیادہ پانی درکار ہے۔ اس کے علاوہ اردگرد کے گاؤں کا کوڑا کرکٹ، زراعت میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات سے آلودہ زرعی فضلہ اور پرندوں کا بے دریغ شکار جھیل کی تباہی کی وجوہات میں شامل ہیں۔ انہی وجوہات کے باعث پنجاب وائلڈ لائف ریسرچ سینٹر (پی ڈبلیو سی آر) کے 2019ء میں کیے گئے سروے میں جھیل میں صرف 20 ہزار 746 پرندے پائے گئے جبکہ 84-1983ء کے سروے میں یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔

عاشق احمد خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے شکاریوں کو اسلحے اور کتوں کے ساتھ جھیل پر دیکھا ہے۔ اس حوالے سے قریبی گاؤں اگالی کے ایک رہائشی نے اعتراف کیا کہ گاؤں والے رقم کے عوض شکار کھیلنے میں شکاریوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ سالوں میں پرندوں نے اچھالی جھیلوں سے منہ موڑ لیا ہے۔

طاہر رشید کا کہنا ہے کہ اس سال موسمِ سرما میں سفید سر والی ایک بھی مرغابی نظر نہیں آئی۔ پنجاب وائلڈ لائف ریسرچ سینٹر کی رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔

جھیل کے منیجمنٹ پلان پر غور و فکر

طاہر رشید کے مطابق 2011ء میں تیار ہونے والا اچھالی جھیل کا منیجمنٹ پلان ابھی تک حکومت کی منظوری کا منتظر ہے اور اس کی ایک وجہ وزارتوں کی تبدیلی بھی ہے۔ پہلے وزارتِ ماحولیات تھی جو اب وزارتِ موسمیاتی تبدیلی ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ آئینِ پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد ماحول کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے۔ منیجمنٹ پلان کی راہ میں بیوروکریسی کے روایتی تاخیری حربے بھی بڑی رکاوٹ بنے رہے ہیں۔

اس حوالے سے ایک خوش آئند بات یہ ہوئی ہے کہ متعلقہ اداروں، حکومتِ پاکستان، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این پاکستان کی حال ہی میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این اچھالی جھیل کے منیجمنٹ پلان کا ازسرِ نو جائزہ لیں گے، اس میں صوبوں کے حوالے سے قوانین کو شامل کیا جائے گا اور ضروری نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں گی۔

طاہر رشید کا کہنا ہے کہ جنوری میں مجوزہ منیجمنٹ پلان صوبوں کو بھیج دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی تجاویز دے سکیں۔ جھیل کے اردگرد زراعت کے طریقوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا، کاشت کاروں کو آلو وغیرہ اگانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے جس کے لیے بہت زیادہ پانی درکار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماحول دوست سیاحت کے حوالے سے جھیل میں کشتی رانی اور برڈ واچنگ جیسی سرگرمیوں کے ذریعے مقامی لوگوں کی آمدنی کے ذرائع پیدا کیے جاسکتے ہیں۔

طاہر رشید کو امید ہے کہ اچھالی منیجمنٹ پلان پر عمل درآمد سے پاکستان کی دیگر 18 آب گاہوں کے تحفظ کے راستے کھل سکتے ہیں۔

وزیرِاعظم کے خصوصی مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ اچھالی جھیل کا منیجمنٹ پلان بہت جلد منظور کرلیا جائے گا۔

ملک اسلم نے یہ بھی کہا کہ وزیرِاعظم کے پروگرام برائے محفوظ علاقہ جات کے تحت حکومت کا عزم ہے کہ محفوظ علاقوں کا صرف رقبہ ہی نہیں بڑھایا جائے بلکہ ان پر سرمایہ کاری کے ذریعے نیشنل پارکس اور ریزرو کو ترقی دی جائے۔ اچھالی ویٹ لینڈ کمپلیکس ایک منفرد اور اہم آب گاہ ہے جو یقیناً ہمارے محفوظ علاقوں کے منصوبے میں شامل ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

شبینہ فراز

شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔