پاکستان

'اپوزیشن نے سینیٹ میں صحافیوں کے تحفظ کے بل کی مخالفت کی'

صحافیوں کی تنخواہوں اور نوکری سے وابستہ امور کو ایک ترتیب میں لانا چاہتے تھے، وزیر اطلاعات شبلی فراز

وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صحافیوں اور ان کی نوکریوں کے تحفظ کے لیے سینیٹ میں بل لائی لیکن اپوزیشن جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) نے مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ دو روز قبل سینیٹ میں پرائیویٹ ممبر بل کو مسترد کردیا گیا جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں، اس بل سے ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ورکرز کی تنخواہوں اور نوکری سے وابستہ امور کو ایک ترتیب میں لایا جائے۔

مزید پڑھیں: صحافیوں کے تحفظ کیلئے پاکستان بار کونسل کی کمیٹی تشکیل

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ ایک ریگولیٹری ادارہ بنایا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی بھی صحافی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو، اس کو قواعد و ضوابط کے تحت وابستہ رہے لیکن بدقسمتی سے دونوں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اس بل کو کیوں مسترد کیا کیونکہ یہ بل صحافی برادری کے لیے تھا، پاکستان تحریک انصاف کے لیے تو نہیں تھا اور ہم چاہتے تھے کہ صحافی اور ان کا روزگار محفوظ رہے اور آپ جس بھی ادارے سے وابستہ ہیں وہ تعلق قانونی ہو۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دنیا کی معیشتوں کو بڑا دھچکا لگا ہے، امریکا، برطانیہ اور پڑوسی ملک بھارت سمیت بڑے بڑے ملکوں کی معیشت سکڑ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر پاکستان میں بھی کاروبار پر اثر پڑا ہے لیکن ہماری حکومت نے اپنے محدود وسائل کے باوجود 12 کھرب کا پیکج دیا تھا جس کا مقصد متاثرہ شعبوں کی مدد کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کے تحفظ کے لیے آئی پی آئی کے جنوبی ایشیائی منصوبے کا آغاز

انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے ادارے ہیں جس میں ملازمین کو کئی ماہ تک تنخواہ نہیں ملی، آج کل کے دور میں ایک مہینے کی تنخواہ بھی نہ ملنا ایک کرب و عذاب ہے، اس کے لیے ہم اپنے تئیں جو ادائیگیاں ان میڈیا اداروں کو کرنی تھی، وہ کسی حد تک کردی ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ اس ہفتے بھی ہم 5 کروڑ اشتہارات کی مد میں دے رہے ہیں، میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ ملازمین کی تنخواہیں کسی صورت بھی التوا کا شکار نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ یہ بہت تکلیف دہ عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن خود ایک دوسرے کی دشمن ہے، ایک تھی پی ڈی ایم کے نام سے جانی جانے والی تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اس سے ظاہر یہی ہوا ہے کہ لوگ کسی بھی ایسی تحریک کا ساتھ دیتے ہیں جس کی کوئی اخلاقی بنیاد ہو جیسے ہماری تحریک تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ کرپشن کو بچانے یا کسی ذاتی مفاد کے لیے باہر نہیں نکلتے ہیں اور یہی ایک مسئلہ تھا کہ اپوزیشن حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ حکمت عملی اپنا رہی تھی کہ حکومت ان کے کیسز میں ان کو کوئی سہولت دے۔

مزید پڑھیں: 'پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ نہیں، اپوزیشن اتحاد میں بے چینی ہے'

ان کا کہنا تھا کہ صدر مشرف بھی اسی دباؤ میں آگئے تھے اور انہوں نے این آر او دے دیا تھا، وزیر اعظم عمران خان کے لیے آسان ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کر کے آرام سے حکومت کریں لیکن ہم دباؤ میں نہیں آئے ہیں اور نہ ہی آئیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ وزیر اعظم یا کسی وزیر نے کورونا ویکسین لگوائی ہے بلکہ اگر مجھے کوئی پیشکش کرے گا تو بھی میں کہہ دوں گا کہ مجھے ویکسین لگانی ہی نہیں ہے۔

گورنر ہاؤس کی گاڑی میں کتے کی سیر کی ویڈیو پر عمران اسمٰعیل نے وضاحت کردی

10 سال کھیل کر اتنی عزت نہیں ملتی جتنی اب مل رہی ہے، فواد عالم

’جن سکھوں نے جواہر لعل نہرو کو جھکا دیا، کیا مودی ان کا مقابلہ کرسکیں گے؟‘