چارسدہ کا روایتی ’خمتا‘ یا کھدر کیسے تیار ہوتا ہے؟
خیبر پختونخوا کا ضلع چارسدہ ہاتھ سے بُنے کھدر کے کپڑے کے لیے مشہور ہے۔ اسے کھڈی بھی کہا جاتا ہے اور یہ کپڑا ملک بھر میں مقبول ہے۔ سرد موسم کے آتے ہی کھدر کا کپڑا بھی بازار میں آجاتا ہے اور خوب بکتا ہے۔
35 سالہ احسان اللہ گزشتہ 8 سال سے کھدر کا کپڑا بیچ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی دکان میں کھدر کا تھان کھولتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’میری ایک ویب سائٹ بھی ہے جس پر مجھے ملک بھر سے کھدر کے آرڈر آتے ہیں۔ میرا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے اور ہم کئی اقسام کا کھدر فروخت کرتے ہیں‘۔
اکثر نوجوان کھدر کو ’پشتون ڈینم‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ دوسرے کپڑوں کی طرح اسے دھونے کے بعد استری کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ احسان اللہ نے کہا کہ ’میں کئی سالوں سے خمتا ہی پہنتا آرہا ہوں کیونکہ یہ واش اینڈ وئیر ہے (یعنی بس دھوئیے اور پہن لیجیے)‘۔
34 سالہ افتخار احمد ایک ٹریول ایجنٹ ہیں۔ وہ سردیوں میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے صرف کھدر کا کپڑا پہنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے خمتا کے ساتھ کوئی جیکٹ یا سوئیٹر پہننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کھدر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان سیاستدانوں میں بھی مقبول ہے جو باہر رہتے ہیں اور بار بار کپڑے تبدیل کرنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے‘۔
لیکن پس منظر میں روایت اور جدیدیت کی نسلوں پرانی ایک جنگ ہے جو لڑی جارہی ہے۔
60 سالہ گل خان ہمیں اپنے گھر لے گیا تو اس دوران تیز بارش ہورہی تھی۔ کھدر کی شال اوڑھے گل خان نے ہمیں بتایا کہ ’صرف یہی ایک ایسی چیز ہے جو اس سردی کو روک سکتی ہے‘۔
کچی مٹی سے بنے اس گھر کے ایک کمرے میں اس نے 3 کھڈیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ لکڑیاں، دھاگے اور سوئیاں ہی میری فیکٹری ہے جہاں میں چارسدہ کا مشہور کھدر تیار کرتا ہوں‘۔ یہ سب چیزیں مقامی ہنرمندوں نے ہی تیار کی ہیں اور ان پر 10 سے 15 ہزار روپے خرچہ آیا۔
گل خان بچپن سے ہی یہ کام کرتے آرہے ہیں۔ وہ اپنے والد کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے جو کھڈی پر کپڑا تیار کرتے تھے۔ گل خان نے کہا کہ ’میں 14 سال کا تھا جب میں نے والد صاحب کی فیکٹری میں سیلز مین کے طور پر کام کیا۔ میرے والد کپڑا تیار کرتے تھے اور میں اسے بازار میں بیچتا تھا‘۔ گل خان کے والد انہیں زیادہ تھان بیچنے پر بونس بھی دیا کرتے تھے۔ ’میں ان پیسوں سے اپنے دوستوں کے ساتھ قریبی گاؤں دیہاتوں میں گھومنے چلا جاتا تھا‘۔
اس کمرے کو دیکھتے ہوئے میری نظر ایک ٹیپ ریکارڈر پر پڑی۔ مجھے اس جانب دیکھتے ہوئے گل خان نے بتایا کہ ہاتھ سے کپڑا تیار کرنا وقت طلب اور تھکا دینے والا کام ہے۔ ’یہ ٹیپ ریکارڈر ہی ہماری تفریح ہے ہم لوک گیت سنتے ہوئے گھنٹوں تک کام کرتے ہیں‘۔
پروفیسر سہیل خان، مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، انہوں نے پشتوں تاریخ پر خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔ سہیل خان کھدر کی صنعت کو پشتونوں کے طریقہ حیات پشتون ولی سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق کھدر یا کھڈی کو پوری پشتون بیلٹ میں خمتا کہتے ہیں اور یہ ان علاقوں میں سب سے مشہور لباس ہے۔
خمتا کا ذکر پشتو شاعری میں بھی ہے۔ مشہور پشتو شاعر خوشحال خان خٹک کی نظم میں اس کا ذکر یو آیا ہے کہ:
لوگوں میں منفرد/ بہتر نظر آنے کے لیے خمتا پہنو
چاہے کوئی بھی رنگ ہو، اس نرم
ریشم کی مانند کپڑے کو پہنو
پہلے زمانے میں کپڑا صرف ہاتھ کی کھڈیوں پر ہی تیار ہوتا تھا، کاریگر ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے کھڈی کو چلاتے تھے۔ بعد میں ان کی جگہ بجلی سے چلنے والی کھڈیوں نے لے لی۔ گل خان کہتے ہیں کہ چارسدہ میں اب 3 یا 4 کاریگر ہی ہاتھ سے کھدر تیار کرتے ہیں۔ باقی پوری صنعت اب بجلی سے چلنے والی کھڈیوں پر منتقل ہوچکی ہے جس سے پیداوار تیز ہوگئی ہے۔
کھڈی پر کام کرتے ہوئے گل خان نے ہمیں بتایا کہ ’ہاتھ کی کھڈی پر ایک شال تیار کرنے میں کم از کم ایک ہفتہ لگتا ہے جبکہ بجلی سے چلنے والی کھڈی یہی کام چند گھنٹوں میں کردیتی ہے۔ لیکن ہاتھ سے تیار کردہ کھدر کی اپنی الگ مانگ ہے اور میرے پاس دیگر شہروں سے بھی اس کے آرڈر آتے ہیں۔ جو لوگ ہاتھ کی بنی شال پسند کرتے ہیں وہ اس کے لیے زیادہ قیمت بھی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ ایک ہاتھ کی بنی شال کی قیمت 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک ہوتی ہے کیونکہ اسے تیار ہونے میں وقت لگتا ہے اور اس میں اچھے معیار کا اُون یا دھاگہ استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ مشین سے بنی شال کی قیمت 5 سو سے 2 ہزار روپے تک ہوتی ہے‘۔
گل خان کا بیٹا بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھا کالے رنگ کا کپڑا تیار کر رہا تھا۔ اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے گل خان نے کہا کہ ’میرا پورا گھر کپڑا تیار کرنے میں میری مدد کرتا ہے۔ میں 60 سال کا ہوگیا ہوں اور اپنے گھر والوں کی مدد سے ہی میں نے ہاتھ سے کھدر تیار کرنے کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے‘۔
25 سالہ آصف جان بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کررہے ہیں لیکن ان کا خاندانی کاروبار کھدر تیار کرنا ہی ہے۔ ان کے گھر والوں نے خاندان کے دیگر افراد سے پیسے جمع کرکے بجلی سے چلنے والی کھڈی خریدی ہے۔ آصف کا کہنا ہے کہ ’اس میں منافع زیادہ ہے اور ہاتھ کی کھڈی کی نسبت اسے استعمال کرنا بھی آسان ہے، ہاتھ کی کھڈی استعمال کرنے میں زیادہ طاقت اور وقت لگتا ہے۔
شاید ہی کوئی ہاتھ کی کھڈی پر دن بھر میں 3 شلوار قمیض کا کپڑا تیار کرسکے جبکہ یہ بجلی سے چلنے والی کھڈی دن میں 15 سے 20 سوٹوں کا کپڑا تیار کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگ مشین سے تیار ہونے والے کپڑے کو پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کی بُنائی زیادہ باریک اور قریب ہوتی ہے‘۔
اس وقت کاریگر ایک دفعہ سرمایہ کاری کرکے بجلی کی کھڈیاں لگا رہے ہیں تاکہ ان کی محنت اور وقت کی بچت ہوسکے۔ آصف کا کہنا ہے کہ ’بجلی کی کھڈی لگانے میں تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ کئی نوجوان اس کام میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ یہ منافع بخش کام ہے‘۔
آصف نے بتایا کہ ’سردیوں میں دیگر شہروں میں کھدر کی طلب بڑھنے کی وجہ سے اسے دیگر کھڈی مالکان کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں جو بجلی کی کھڈیوں پر ہی کپڑا تیار کرتے ہیں، کیونکہ سردی میں آنے والے آرڈروں کو اکیلے پورا کرنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے‘۔
بُنائی کے اس کاروبار سے سیکڑوں خواتین بھی منسلک ہیں، اور وہ اس کام میں گھر کے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔ گل خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھر کی خواتین چرخے پر دھاگہ تیار کرتی ہیں، ہمارے بچے بھی یہ کام سیکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہماری مدد کرتے ہیں‘۔
ماضی میں چرخہ کسی بھی لڑکی کے جہیز کا ایک لازمی حصہ ہوتا تھا تاکہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کما سکے اور اپنے شوہر کی مدد کرسکے۔ گل خان نے بتایا کہ ’شادی کے پہلے دن سے ہی لڑکیاں کمانا اور اپنا خرچہ اٹھانا شروع کردیتی تھیں۔ لیکن یہ سب اب تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ انسانی ہاتھوں کی جگہ اب مشینوں نے لے لی ہے‘۔
کسی زمانے میں گل خان کو ایک کلو دھاگہ 40 سے 60 روپے میں مل جاتا تھا لیکن اب یہ قیمت 2 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ سردیوں میں مقامی طور پر تیار کردہ دھاگے کے علاوہ ملتان، لاہور، قصور، منڈی بہاالدین اور فیصل آباد سے بھی دھاگہ خریدنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’آج کل دھاگہ بنانے کے لیے چینی ساختہ پالیسٹر استعمال ہوتا ہے جس کا معیار ہاتھ سے تیار شدہ کھدر میں استعمال ہونے والے دھاگے کی نسبت کم ہوتا ہے‘۔
شیر عالم شنواری نے خیبر پختونخوا کی روایات پر بہت کام کیا ہے۔ ان کے مطابق ماضی میں کپڑا تیار کرنے والوں کو برادری سے باہر کا سمجھا جاتا تھا جسے پشتو میں شہ خیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس زمین کی ملکیت نہیں ہوتی تھی اور وہ دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے پشون اکثریتی علاقوں میں بس جاتے تھے۔ اکثر یہ مہاجرین قبائل کے سرداروں کے لیے کام کرتے تھے اور بدلے میں ان کو کھانا اور رہنے کی جگہ دی جاتی تھی‘۔
سہیل خان نے ہمیں بتایا کہ ’وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں تبدیل ہوئیں اور اب امیر گھرانے بھی اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ باچا خان نے اپنی خدائی خدمت گار تحریک میں ان کاریگروں کی حالت کو بھی چیلنج کیا تھا‘۔ سہیل خان اس تحریک پر تحقیقی مقالہ بھی لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے ہمیں مزید بتایا کہ ’باچا خان نے اپنے پیروکاروں کو خمتا پہننے کی تاکید کی تاکہ اس مقامی صنعت کو فروغ مل سکے۔ اسی وجہ سے مقامی مارکیٹوں میں اسے باچا خانی کلاتھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‘۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ معاشی رسہ کشی کے آگے یہ روایتی اور ثقافتی ورثہ کب تک برقرار رہتا ہے۔
یہ مضمون 17 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
طارق اللہ کا تعلق پشاور سے ہے اور وہ شعبہ صحافت سے منسلک ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔