دنیا کی 63 کروڑ خواتین اور بچے جنگی تنازعات کا شکار
کراچی: ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلح تنازعات ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ اور لمبے ہوتے جارہے ہیں اور انہیں صحت کی ضروری سروسز تک رسائی رکنے کا خطرہ لاحق ہے جس سے کم از کم 63 کروڑ خواتین اور بچے یا دنیا کی آبادی کا 8 فیصد حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین اور تفتیش کاروں پر مشتمل دی لینسیٹ کی جانب سے اتوار کو شائع 4 صفحات پر مشتمل مقالے میں تنازع کا شکار علاقوں میں عالمی برادری کی خواتین اور بچوں کی صحت کو ترجیح دینے میں ناکامی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انسانی حقوق کے اداروں اور امداد دہندگان سے سیاسی اور سیکیورٹی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی عہد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ خطرات سے دوچار بچوں اور خواتین تک ترجیحی بنیادوں پر پہنچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
مزید پڑھیں: جنگ زدہ ملکوں میں 2010 سے اب تک بچوں پر حملوں میں 3گنا اضافہ
کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سینٹر فار گلوب چائلڈ ہیلتھ اور اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ کے پروفیسر ذولفقار بھٹہ نے کہا کہ نئے تخمینے جنگ کی وجہ سے آسانی سے روکنے والے متعدی امراض، غذائی قلت، جنسی تشدد، خراب دماغی صحت اور ساتھ ہی پانی اور طبی سہولیات جیسی بنیادی سروسز کی تباہی کے ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تنازعات کا سامنا کرنے والے ممالک میں رہ رہے ہیں، عالمی برادری ان کی حالت زار کو نظرانداز نہیں کرسکتی، انہوں نے مزید کہا کہ اب عالمی ردعمل کی بنیاد پر دوبارہ غور کرنے کا وقت آگیا ہے جو عدم تحفظ، رسائی، سیاست، ہم آہنگی اور خواتین اور بچوں کو سیاسی طور پر غیر مستحکم اور غیر محفوظ علاقوں میں اعلیٰ ترجیحی اقدامات کے تحت رسد کی فراہمی میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرسکے۔
اس سلسلے میں مقالے میں جنگ اور تنازعات کی بدلتی ہوئی نوعیت، خواتین اور بچوں پر اس کے مختصر اور طویل مدتی صحت کے اثرات، بہترین ردعمل کی نشاندہی کرنے کی حکمت عملی اور اندرون ملک تشخیصات اور مطالعات کی مدد سے اقدامات کی تحقیق بھی کی گئی۔
جنگ کے بالواسطہ اثرات
نئے اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ آبادی میں اضافے، مزید تنازعات، شہری علاقوں میں روایتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال اور مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں سنہ 2000 کے بعد سے دنیا بھر میں مسلح تنازعات سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
2017 میں دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک (10 فیصد) خواتین اور چھ میں سے ایک (16 فیصد) بچوں کو زبردستی تنازعات کے ذریعے بے گھر کردیا گیا تھا یا تنازع کے حامل علاقوں میں خطرناک حد تک (50 کلومیٹر کے اندر) رہنے پر مجبور تھے، متاثرہ افراد میں سے ایک تہائی کے قریب افراد پاکستان، نائیجیریا اور ہندوستان میں رہتے ہیں۔
شواہد سے پتا چلتا ہے کہ عدم تشدد کے سبب مرنے کا خطرہ زیادہ شدت اور دائمی تنازعات کی قربت کے ساتھ کافی حد تک بڑھ جاتا ہے، افریقہ میں جنگی تنازعات کے حامل علاقوں میں بچے پیدا کرنے کی عمر کی خواتین کے پرامن علاقوں کی خواتین کے مقابلے میں مرنے کے تین گنا زیادہ امکانات ہیں اور نومولود بچوں میں موت کا خطرہ 25 فیصد سے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'افغانستان میں یومیہ 9 بچے ہلاک یا معذور ہوئے'
تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ 1995 سے 2015 کے درمیان افریقہ، ایشیا اور امریکا میں لڑائی کے بالواسطہ نتائج سے تنازعات کے 50 کلومیٹر کے اندر 67 لاکھ سے 75 لاکھ نومولود اور پانچ سال سے کم عمر ایک کروڑ بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔
امریکن یونیورسٹی لبنان سے شریک مصنف ڈاکٹر ہالہ بل گٹاس نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ خواتین اور بچوں پر مسلح تصادم کے بالواسطہ اثرات اصل لڑائی کے اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔