پاکستان

چیئرمین سینیٹ نے بھی ایوان بالا کے انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کی حمایت کردی

سینیٹ انتخابات میں کشادگی اور شفافیت وسیع تر قومی مفاد میں ہے، صادق سنجرانی کا عدالت میں تحریری جواب

اسلام آباد: سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے آئندہ سینیٹ انتخابات میں کھلی رائے شماری (اوپن بیلٹ) کے ذریعے شفافیت کا کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے 5 ججوں کے بینچ کے سامنے تحریری شکل میں جمع کرائے گئے خلاصے میں سینیٹ چیئرمین نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں کشادگی اور شفافیت وسیع تر قومی مفاد میں ہے، صادق سنجرانی نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والی عدالت کو لکھا کہ سینیٹ کا ماننا ہے کہ آئینی شرائط یا دفعات کی ایسی ترجمانی جس سے عوامی فلاح و بہبود، جمہوریت اور انتخابی عمل میں منصفانہ سلوک کو فروغ ملتا ہے، وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کا مطالبہ ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات:عمران خان’ہارس ٹریڈنگ‘میں ملوث پارٹی ارکان کے نام سامنے لے آئے

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ، صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کا جواب دینے کے لیے ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے کہ آیا آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ رائے شماری کی شرط سینیٹ انتخابات پر لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔

اس سے قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے بھی عدالت عظمیٰ کے سامنے استدعا کی تھی کہ آئندہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے کھلی یا قابل شناخت ووٹ کے ذریعے انتخابات سے پارلیمانی جمہوریت مضبوط ہوگی۔

بیرسٹر محمد علی خان سیف کے ذریعے بیان کیے گئے تازہ ترین خلاصے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر آئینی طور پر ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انتخابات کرانے کی ذمے داری عائد کی گئی ہے، اس وقت تک کوئی کام ممکنہ طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا جب تک خصوصاً ایوان بالا کے انتخابات کے حوالے سے آئینی اور قانونی فریم ورک قابل فہم، منطقی اور بہترین بین الاقوامی معیارات کے مطابق نہ ہو۔

خلاصے میں استدلال کیا گیا کہ مارچ 2015 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے دوران دھاندلی اور فلور کراسنگ کا معاملہ منظر عام پر آگیا جس کے نتیجے میں سینیٹرز کے انتخابی طریقہ کار کے بارے میں بحث و مباحثہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کیلئے اوپن بیلٹ کا فیصلہ

سینیٹ کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی (ایچ بی اے سی) نے بعد میں یہ معاملہ اٹھایا اور تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے کو بحث اور سفارشات کے لیے ایوان بالا کے سامنے لایا جائے۔

کمیٹی کے فیصلے کے مطابق 7 اگست 2015 کو ایوان میں اراکین کے انتخاب کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا گیا، اراکین نے اس معاملے پر بحث کی اور اپنی جماعت کے اصولوں سے بالاتر ہو کر رائے کا اظہار کیا، سینیٹ نے اس معاملے پر وسیع بحث کے بعد کمیٹی کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیا۔

خلاصے میں کہا گیا کہ اسی کے تحت قائد ایوان کی طرف سے 10 اگست 2015 کو ایک تحریک پیش کی گئی اور سینیٹرز کے انتخابی طریقہ کار، قابل منتقلی واحد ووٹنگ نظام کے فوائد و نقصانات، انتخابی اصلاحات اور دیگر ذیلی معاملات پر غور کرنے کے لیے پوری کمیٹی تشکیل دی گئی۔

کمیٹی نے بیلٹ پیپر پر ووٹر کا نام چھاپنے اور پارٹی سربراہ کو انتخابات کے بعد تفصیلات طلب کرنے کا اختیار دینے کے طریقہ کار کی سفارش کی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ پارلیمنٹیرینز ، سیاسی جماعتوں، دانشوروں ، صحافیوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ سینیٹ کے اراکین کے انتخاب کے لیے آزاد اور شفاف انتخابات، انتخابی عمل میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دے گا، یہ ووٹرز کی رائے کا احترام کرے گا، سیاسی جماعتوں اور ان کے نظم و ضبط کو مضبوط کرے گا جو پارلیمانی جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے کا فیصلہ

خلاصے میں کہا گیا کہ کسی بھی ریاست میں حکومت کا اختیار عوام کی مرضی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے جیسا کہ حقیقی، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں اظہار کیا گیا تھا لیکن براہ راست یا بالواسطہ انتخابات کی نوعیت رائے دہی کے حق کا تعین کرتی ہے، براہ راست انتخابات میں خفیہ رائے دہی بنیادی اصول ہے جبکہ اگر انتخابات بالواسطہ ہوتے ہیں تو انتخاب کنندہ اپنی جماعت کی ہدایت پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

سینیٹ چیئرمین نے کہا کہ منتخب نمائندے ووٹرز اور پارٹی دونوں کو جوابدہ ہیں اور وہ ووٹنگ کے دوران پارٹی لائن پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں، انہوں نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ جس پارٹی نے انہیں انتخابات لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا ہے اس کی ان سے کچھ جائز توقعات ہوتی ہیں جس کے بارے میں ایک الیکٹوریٹ کو معلوم ہونا چاہیے اور اگر کسی رکن میں ہمت ہو اور وہ یہ کہنے کے لیے کھڑا ہو کہ وہ کس کو ووٹ دینا چاہتا ہے تو پھر اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اس کے تحت پارٹی کی ہدایات کے مطابق بالواسطہ انتخابات آئین یا اس موضوع پر کرہ ارض پر کسی بھی دوسرے قانون سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

حریم شاہ تنازع: مفتی عبدالقوی کو چچا نے 'ذہنی مریض' قرار دے دیا

فارن فنڈنگ کیس سے خوف ہوتا تو اوپن سماعت کا نہیں کہتا، وزیر اعظم

کیا ہمارے بچوں کو ہماری نا اہلی کی سزا بھگتنا ہوگی؟