ڈینیئل پرل کیس: ملزم عمر شیخ پر دہشتگردی کے الزامات کا جواب طلب
سپریم کورٹ میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کیس میں نامزد ملزمان کی بریت کے خلاف دائر درخواست کی سماعت میں عدالت نے احمد عمر شیخ پر دہشت گرد تنظیم سے روابط کے الزامات کا جواب طلب کرلیا۔
جسٹس مشیر عالمی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حکومت سندھ اور مقتول صحافی کے والدین رتھ اینڈ جوڈیا پرل کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی متفرق درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت میں ملزمان کے وکیل محمود شیخ نے ایک مرتبہ پھر مؤقف اختیار کیا کہ کسی بھی کیس میں مقدمے کے اندراج میں تاخیر کی ٹھوس وجوہات دینا ہوتی ہیں، ڈینیئل پرل کے اغوا کی ایف آئی آر 12 دن تاخیر سے دائر ہوئی اور اس تاخیر کی وجوہات بھی پیش نہیں کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ’جب بھی مقدمے کی سماعت ہوتی ہے بین الاقوامی لابی متحرک ہوجاتی ہے‘
انہوں نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ اس کیس میں تمام ملزمان کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ملزمان کے وکیل کو کہا کہ قومی اخبارات میں عمر شیخ پر دہشتگرد تنظیم سے تعلق کے الزامات لگے ان پر عدالت کو جواب دیں، جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے مؤکل سے رابطے کے بعد اس معاملے پر دلائل پیش کریں گے۔
جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کہ جیل میں ملزم عمر احمد شیخ کو موبائل فون کیسے ملا یہ جواب دینا باقی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عمر قید کا ملزم جیل سے ملک کے صدر کو دھمکی آمیز فون کرے۔
کیس کے ملزم سلمان ثاقب کے وکیل رائے بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سلمان ثاقب نے فہد نسیم کے ساتھ جا کر کیمرے، اسکینر اور پرنٹر خریدے لیکن خریدی ہوئی چیزوں کا کیس میں کوئی کردار ثابت نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: 'ڈینیئل پرل قتل کیس میں کہانیاں گھڑی گئی ہیں'
جسٹس یحیٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا کسی گواہ نے سلمان ثاقب کے خلاف گواہی دی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ کسی بھی گواہ کے بیان میں سلمان ثاقب کا نام نہیں۔
وکیل رائے بشیر کا مزید کہنا تھا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف جھوٹ کا پلندہ بنا رہی ہے، موجودہ کیس سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔
سماعت میں دلائل دیتے ہوئے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ فہد نسیم کمپیوٹر ایکسپرٹ تھا اور اسی نے ڈینیئل پرل کے بارے میں ای میل کی تھی، کیس میں جس ٹیکسی ڈرائیور کا ذکر ہے اس کا پولیس سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے دریافت کیا کہ کیا ٹیکسی ڈرائیور کو ڈینیئل پرل کی تصویر دکھا کر پوچھا گیا تھا کہ یہ کون ہے؟ جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے بتایا کہ ٹیکسی ڈرائیور کو تصویر دکھا کر شناخت کرانے کے متعلق کوئی چیز ریکارڈ پر موجود نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر
بعدازاں سپریم کورٹ نے عمر شیخ کے وکیل کو دہشت گردی کے الزامات پر اپنے موکل سے ہدایت لینے کے بعد دلائل دینے کا حکم دیا اور سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ عمر احمد شیخ کے وکیل کو ان سے ملنے کے لیے سہولت فراہم کی جائے۔
بعدازاں کیس کی مزید سماعت 27 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
ڈینیئل پرل قتل کیس
یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔
سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد
ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔
تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے دائر درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔