جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کا اطلاق انسانوں میں سامنے آنے والی علامات اور بیماری کی شدت کو سمجھنے کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ خیال کہ کووڈ نظام تنفس کی بیماری ہے، ضروری نہیں کہ درست ہو، ایک بار جب یہ دماغ کو متاثر کرلیتا ہے تو جسم کے ہر حصے کو متاثر کرسکتا ہے، کیونکہ دماغ ہمارے پھیپھڑوں، دل اور ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے، دماغ ایک بہت حساس عضو ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل وائرسز میں شائع ہوئے، جس میں متاثرہ چوہوں کے مختلف اعضا میں کورونا وائرس کی مقدار کی جانچ پڑتال کی گئی۔
چوہوں کے ایک کنٹرول گروپ کو ایک سلوشن کا ڈور نتھنوں کے ذریعے دیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ وبا کے آغاز میں چوہوں پر ہونے والے تحقیقی کام میں توجہ پھیپھڑوں پر مرکوز کی گئی تھی اور یہ تجزیہ نہیں کیا گیا کہ کیا یہ وائرس دماغ پر تو حملہ نہیں کرتا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے 3 دن بعد چوہوں کے پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار عروج پر ہوتی ہے اور پھر گھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔
تاہم اس وائرس کی بہت زیادہ مقدار چوہوں کے دماغوں میں بیماری کے 5 اور 6 دن بعد بھی دریافت کی گئی، جب ان میں بیماری کی زیادہ شدت کی علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات اور کمزوری نظر آئیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وائرس کی مقدار دماغ میں جسم کے کسی بھی حصے کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کچھ مریضوں کی حالت بظاہر بہتر محسوس ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے افعال میں بہتری آتی ہے، مگر پھر حالت اچانک بگڑتی ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے۔
تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کی شدت اور علامات کی اقسام لوگوں میں مختلف ہونے کا انحصار نہ صرف جسم میں وائرس کی مقدار پر ہوتا ہے بلکہ اس پر بھی ہوتا ہے کہ وہ کس راستے سے جسم کے اندر گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتھنوں کے راستے داخلے سے وائرس کو دماغ کی جانب سے سیدھا راستہ ملتا ہے، اگرچہ چوہوں اور انسانوں کے پھیپھڑوں بیماری پر قابو پانے کے لیے ڈیزائن ہوتے ہیں، دماغ میں یہ صلاحیت بہت زیادہ نہیں ہوتی۔