پاکستان

حکومت کا طرز حکمرانی میں بہتری کیلئے اہم سول سروس اصلاحات کا اعلان

ادارہ جاتی ریفارمز کی کمیٹی میں سول سروس ریفارمز کے چھ حصوں پر فیصلے کیے گئے ہیں، شفقت محمود

وفاقی وزیر تعلیم و کابینہ کی ادارہ جاتی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ شفقت محمود نے طرز حکمرانی کو بہتر بنانے اور عوام کی آسانی کے لیے سول سروس اصلاحات کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ کابینہ نے ادارہ جاتی ریفارمز کی کمیٹی میری سربراہی میں قائم کی، ادارہ جاتی ریفارمز کی کمیٹی میں سول سروس ریفارمز کے چھ حصوں پر فیصلے کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں سرکاری ملازمین کی ترقی، ریٹائرڈ کرنے کے اختیار کے بارے میں فیصلہ کیا گیا، ڈسپلنری رولز میں ترامیم کی گئی ہیں، ایم پی سکیل کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے اور سرکاری افسران کی روٹیشن پالیسی پر بھی تفصیلی فیصلہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ادارہ جاتی اصلاحات میں پہلی بار تقرری کی مجاز اتھارٹی کا تعین کیا گیا ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) یا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں انکوائری والے ملازمین کی ترقی کو موخر کیا جائے گا، تین سال تک زیر التوا مقدمات پر ترقی کے لیے کیس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریٹائرمنٹ کے قواعد سرکاری افسران کیلئے تشویش کا باعث

انہوں نے کہا کہ اصلاحات میں ملازمین کی ترقی کے لیے بورڈز کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے چیئرمین کو 20ویں گریڈ تک جبکہ 17 سے 19 تک سیکریٹری اور اس سے نیچے گریڈ کے ملازمین کو ریٹائر کرنے کا اختیار جوائنٹ سیکریٹری کو دے دیا گیا ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ 3 اے سی آر بہتر نہ ہونے پر ملازمین کو ریٹائرڈ کیا جاسکے گا، پلی بارگین کرنے والے افسر کو ریٹائر کرنے کا اختیار ہوگا جبکہ پلی بارگین کرنے والے افسر کے خلاف انضباطی کارروائی بھی کیا جا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، انکوائری کمیٹی کو 60 دن میں فیصلہ کرنا ہوگا، سزا دینے کا اختیار رکھنے والا افسر 30 دن میں فیصلہ کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ الزامات کی صورت میں ایک ہی انکوائری ہوگی، صوبوں میں کام کرنے والے افسران کی انکوائری اب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی کر سکتی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایم پی اسکیل کا دورانیہ 3 سال کر دیا گیا ہے، کمیٹی اس میں توسیع کا اختیار رکھتی ہے۔

مزید پڑھیں: سول سرونٹس کی کارکردگی بہتر کیسی ہوگی؟

انہوں نے کہا کہ روٹیشن پالیسی کے تحت ایک ہی صوبے میں 10 سال سے زیادہ افسر نہیں تعینات رہ سکے گا، جبکہ 2 سال مشکل علاقوں میں سروس کرنا لازمی ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کم کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے، پنشن والے اداروں کے ملازمین کو پنشن ملے گی، اس سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے، جبکہ پنشن ریفارمز کے بارے میں تجاویز زیر غور ہیں۔