صحت

کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں میں طویل المعیاد علامات کی ممکنہ وجہ سامنے آگئی

کووڈ 19 کو شکست دینے والے 80 فیصد مریض صحتیابی کے 6 ماہ بعد بھی اس بیماری کی کم از کم ایک علامت کا سامنا کررہے ہوتے ہیں، تحقیق

کووڈ 19 کو شکست دینے والے 80 فیصد مریض صحتیابی کے 6 ماہ بعد بھی اس بیماری کی کم از کم ایک علامت کا سامنا کررہے ہوتے ہیں جبکہ ایک تہائی افراد میں یہ تعداد 3 ہوتی ہے۔

یہ بات ہانگ کانگ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

چین کی ایک یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کی جانب سے کووڈ 19 سے صحتیابی کے عمل میں معدے کے بیکٹریا کے عدم توازن کے کردار کا جائزہ لیا جارہا تھا۔

اس تحقیقی ٹیم کی کچھ دن پہلے ایک تحقیق جاری ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ معدے میں موجود بیکٹریا کی مقدار کووڈ 19 کی شدت میں کردار ادا کرسکتی ہے۔

اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معدے میں بیکٹریا کی تعداد میں عدم توازن کے نتیجے میں کووڈ 19 کی سنگین شدت اور صحتیابی کے بعد طویل المعیاد علامات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے مریضوں میں پائی جانے والی طویل المعیاد عام علامات تھکاوٹ، یاداشت کمزور ہونا، نیند میں مشکلات، سانس پھولنا اور بالوں کا گرنا شامل ہیں۔

محققین نے زور دیا کہ اس بیماری کو شکست دینے والے افراد میں بیکٹریا کے عدم توازن کا علاج ان مسائل سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے مریضوں میں معدے کے بیکٹریا کے مسائل کس حد تک لانگ کووڈ کے کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کی 40 فیصد آبادی کو ان مسائل کا سامنا ہے اور ان کا توازن بحال کرنا مدافعت کو بڑھانے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

تحقیق کے لیے کووڈ 19 کے سو مریضوں کے نمونے اکٹھے کیے گئے جو فروری سے مئی 2020 کے دوران ہسپتال میں زیرعلاج رہے تھے اور ان میں سے 30 کا جائزہ صحتیابی کے 6 ماہ بعد لیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ 24 افراد کو تاحال کم از کم ایک علامت کا سامنا تھا جبکہ 9 نے یہ تعداد 3 سے زیادہ بتائی۔

نمونوں کے تجزیے میں دریافت کیا گیا کہ بیشتر مریضوں میں صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا کی کمی تھی جو مدافعتی نظام کو ریگولیٹ کرتے ہیں جبکہ نقصان دہ بیکٹریا کی تعداد زیادہ تھی۔

تحقیق میں دریافت کیا کہ بیکٹریا کا یہ عدم توازن ابتدائی ردعمل کے بعد مدافعتی نظام کے افعال میں رکاوٹ بنتا ہے اور بیماری کی شدت میں کردار ادا کرتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت کیا گیا کہ معدے کے بیکٹریا میں مسائل مدافعتی نظام پر اثرانداز ہوکر سنگین بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم دریافت ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں میں بیماری کی شدت سنگین کیوں ہوتی ہے، حالانکہ بیشتر میں علامات تک ظاہر نہیں ہوتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بزرگوں، موٹاپے کے شکار افراد اور دائمی امراض کے شکار لوگوں میں معدے کے بیکٹریا کے مسائل کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کووڈ 19 کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

محققین نے مشورہ دیا کہ لوگ غیرضروری طور پر اینٹی بائیوٹیکس یا بہت زیادہ پراسیس غذاؤں کے استعمال سے گریز کرکے بیکٹریا میں اس عدم توازن کا خطرہ کم کرسکتے ہیں۔

کووڈ کی سنگل ڈوز ویکسین ابتدائی مراحل میں مؤثر قرار

پاکستان میں منظوری حاصل کرنیوالی پہلی ویکسین کووڈ سے کیسے بچاتی ہے؟

کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کو اس سے کئی ماہ تک تحفظ ملتا ہے، تحقیق