پاکستان

براڈ شیٹ معاملے میں کی گئی ادائیگی، ماضی کی ڈیلز کی قیمت ہے، شہزاد اکبر

ماضی میں جو این آر او اور تصیفے ہوئے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، مشیر داخلہ و احتساب کی پریس کانفرنس

وزیراعظم کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ معاملے میں جو ادائیگی کی گئی وہ ماضی میں کی گئیں ڈیلز اور دیے گئے این آر اوز کی قیمت ہے۔

پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وکلا نے براڈ شیٹ سے متعلق فیصلے منظر عام پر لانے کے لیے رابطہ کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈ شیٹ کے معاملے میں کوانٹم اور ہائی کورٹ کے احکامات تھے، عدالت کا فیصلہ اپیل پر ہونے کی وجہ سے عوام کے لیے قابل رسائی تھا البتہ واجب الادا رقم کے تعین کے حوالے سے کوانٹم کا حکم پرائیویٹ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: براڈ شیٹ اسکینڈل پر بنائی گئی کمیٹی انکشافات کرے گی، شبلی فراز

ان کے مطابق وزیراعظم کے حکم پر ہم نے اپنے وکلا کے ذریعے براڈ شیٹ کے وکلا سے رابطہ کیا اور ان سے تحریری طور پر ان سے رضامندی حاصل کی گئی کہ حکومت پاکستان تمام فیصلوں کو منظرِ عام پر لانا چاہتی ہے جس پر ان کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے مؤکل کو یہ فیصلے منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ساتھ ہی وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب نے براڈشیٹ کے پاکستان کے خلاف دیے گئے فیصلے کی نقول صحافیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام وہ وزیراعظم کے احکامات پر کررہے ہیں اور یہ بات ان کے اس یقین سے مطابقت رکھتی ہے کہ احتساب شفافیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ معاملات کے آغاز سے تفصیلات بتاتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سال 2000 میں جون کے مہینے میں قومی احتساب بیورو (نیب) اور براڈ شیٹ کے مابین اثاثہ برآمدگی کا پہلا معاہدہ ہوا، جس کے بعد جولائی 2000 میں ایک اور ادارے انٹرنیشنل ایسٹ ریکوی کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2000 میں جب نواز شریف اس وقت کی حکومت سے ڈیل کر کے سعودی عرب چلے گئے تو ایک اور معاہدہ ہوا جو چلتا رہا اور اس میں اس کمپنی کو مختلف اہداف دیے گئے۔

مزید پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے کی تحقیقات کا حکم

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 28 اکتوبر 2003 میں حکومت پاکستان یعنی نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ یہ معاہدہ منسوخ کردیا، جس کے بعد دونوں اداروں نے 2007 میں حکومت پاکستان کو نوٹس دے دیا تھا کہ ہماری رقم واجب الادا ہے۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ ان نوٹسز کے تناظر میں آئی اے آر کے ساتھ جنوری 2008 میں تصفیہ کیا گیا اور انہیں 22 لاکھ 50 ہزار ڈالر ادا کیے جانے تھے جو اب بھی نافذ عمل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 20 مئی 2008 کو براڈ شیٹ کے ساتھ بھی تصفیے کے معاہدے پردستخط ہوئے جس کے تحت انہیں 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

مشیر داخلہ نے مزید بتایا کہ اکتوبر 2009 کو براڈ شیٹ نے واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کو نوٹس بھیجا، چنانچہ اس دور میں دوبارہ ثالثی کی کوششوں کا آغاز ہوا جبکہ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: براڈ شیٹ کے مالک نے مسلم لیگ (ن) کا جھوٹ بے نقاب کردیا، شہزاد اکبر

ان کا مزید کہنا تھا کہ ثالثی میں معاملہ چلتا رہا اور 2016 میں اپنے اختتام پر پہنچا جس کے تحت اگست 2016 میں پاکستان کے خلاف واجب الادا رقم کا دعویٰ منطور ہوگیا، اس کے بعد 2 سال تک رقم کے تعین کا سلسلہ چلا اور اس کا فیصلہ جولائی 2018 میں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ اگست 2018 میں ہماری حکومت آئی اور جولائی 2019 میں اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اپیل کی گئی جس کا فیصلہ ہمارے خلاف آیا، جون 2020 میں براڈ شیٹ نے ثالثی کا عبوری حکم حاصل کیا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے لہٰذا اس کے جہاں بھی اثاثے ہوں ان پر ایک ضمنی حکم جاری کیا جائے، یہ حکم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور بینک اکاؤنٹس پر لیا گیا۔

شہزاد اکبر کے مطابق 31 دسمبر 2020 کو براڈ شیٹ کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جس کے بعد اس نے عبوری حکم واپس لے لیا۔

مزید پڑھیں: سیاسی الزام تراشیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، سربراہ براڈ شیٹ

انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ سامنے رکھنے سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ یہ معاملہ ماضی کی ڈیلز اور این آر اوز کی قیمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو این آر او اور تصیفے ہوئے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی حکومت پاکستان کو آپ کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے کرنی پڑی ہے۔

'2020 میں 279 غیرفطری اموات'، لاہور پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا

'ٹائی ٹینک' کے بعد برطانوی میڈیا نے ہراساں کیا، کیٹ ونسلیٹ

راولپنڈی: کم عمر معذور ملازمہ پر ’تشدد‘ کے الزام میں گرفتار جوڑا جیل منتقل