پاکستان

'2020 میں 279 غیرفطری اموات'، لاہور پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا

پولیس نے 279 غیر فطری اموات کی زیر التوا انکوائریوں کو آپریشن ونگ سے لے کر انویسٹی گیشن میں منتقل کردیا ہے۔

لاہور پولیس نے قابل دست اندازی جرم کے ناقابل تردید شواہد کا جائزہ اور مجرمانہ کارروائی شروع کرنے کے لیے سال ’2020 کی 279 غیر فطری ہلاکتوں‘ کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہے جس میں پولیس نے 279 غیر فطری اموات کی زیر التوا انکوائریوں کو آپریشن ونگ سے لے کر انویسٹی گیشن میں منتقل کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب: 9 پولیس افسران کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) کی جانب سے پولیس کے دونوں ونگز کے ڈی آئی جیز کی سفارشات پر خودکشی، حادثاتی، غیر فطری اور مشکوک اموات کی تحقیقات کے لیے ہدایت جاری کی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال ضلع لاہور میں ایسے حالات میں 279 افراد لقمہ اجل بنے جس میں اسٹیشن ہاؤس افسران (ایس ایچ اوز) نے انکوائری شروع کی تھی، ان لاشوں کو آپریشن ونگ نے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 174 کے تحت تحقیقات کے لیےقبضے میں لیا تھا۔

نئے قدم کے تحت اس طرح کی انکوائریز کی فرانزک اور سائنسی جانچ کے بعد قتل کی وارداتوں/الزامات کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آرز) میں تبدیل کیا جائے گا تاکہ موت کی وجہ کا پتا لگایا جا سکے اور قتل کے کسی بھی شبے کو مسترد کیا جا سکے۔

اس حوالے سے ایک سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ یہ قدم یہ جاننے کے لیے اٹھا گیا ہے کہ یہ 279 افراد خودکشی، حادثے یا قتل کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ خودکشی یا حادثے کے متعدد معاملات میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ نے قتل کا شبہ ظاہر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس میں بھرتی کیلئے امیدواروں کی دوڑیں

انہوں نے کہا کہ غیر فطری موت کی صورت میں انصاف کے معیار کو پورا کرنے کے لیے حالات (وجوہات) کی وضاحت اور جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب ڈان کو دستیاب سرکاری ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ سال 279 غیر فطری اموات میں سے 251 مرد، 23 خواتین اور پانچ بچے شامل تھے۔

ڈویژن وار اعدادوشمار کے مطابق لاہور سے برآمد ہونے والی کُل 279 لاشوں میں سے 126 لاشیں سٹی ڈویژن سے ملی تھیں جن میں 124 مرد اور دو خواتین شامل تھیں۔

کینٹ ڈویژن نے 11 لاشیں برآمد کیں جن میں 4 مرد، 6 خواتین اور ایک بچہ تھا، سول لائنز ڈویژن سے ملی 38 لاشوں میں سے 37 مرد جبکہ ایک خاتون کی تھی۔

صدر ڈویژن نے مجموعی طور پر 52 لاشیں برآمد کیں جس میں مردوں کی 45، خواتین کی 6 اور ایک بچے کی شامل تھی۔

مزید پڑھیں: سابق حکمران فوج کو پنجاب پولیس بنانا چاہتے تھے، عمران خان

اقبال ٹاؤن ڈویژن سے برآمد ہونے والی 16 لاشوں میں سے 14 مرد اور دو خواتین تھیں، ماڈل ٹاؤن ڈویژن نے 36 لاشیں برآمد کیں جن میں 27 مرد، 6خواتین اور بچوں کی 3 لاشیں تھیں۔

ادھر پولیس ماہرین کی ایک ٹیم نے لاہور آپریشنز کے ڈی آئی جی اشفاق احمد خان کی نگرانی میں طویل عرصے سے نظرانداز مسئلے کے قانونی اور انتظامی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا۔

اس بارے میں آفیسر نے بتایا کہ ٹیم نے اصولی مؤقف اختیار کیا کہ دفعہ 176 سی آر پی سی (1898) کے تحت ، جب اور جہاں بھی ضرورت ہو، مستقبل میں لاہور پولیس کے انچارج انویسٹی گیشن/انویسٹی گیشن عملے کے ذریعے کارروائی کی جائے گی۔

اس کے نتیجے میں 279 غیر فطری اموات کے بارے میں انکوائری کو 30 دسمبر 2020 کو ہونے والے ایک اجلاس میں دونوں ونگ کے ڈی آئی جی کی سفارشات پر آپریشن ونگ سے انوسٹی گیشن ونگ کے پاس بھیج دیا گیا تھا۔

ایس ایچ اوز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ مستقبل میں موت کی تفتیش کو انچارج انکوائری کے پاس بھیجیں جو شواہد، تازہ ڈی این اے ٹیسٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹس حاصل کر کے موت کی وجہ کا پتا لگائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور پولیس چیف سے تنازع پر آئی جی پنجاب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا

بہتر خدمات کی فراہمی کے سلسلے میں تحقیقات کے معیار کو ہموار اور بہتر بنانے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسے حالات میں جہاں تھانے کا ایس ایچ او سی آر پی سی کی دفعہ 174 کی دفعات کے مطابق کارروائی کا فیصلہ کرے، ایسی صورت میں کارروائی اور تفتیش کو فوری طور پر متعلقہ پولیس اسٹیشن کے انچارج انوسٹی گیشن کو بھیج دیا جائے۔

اگر انچارج انوسٹی گیشن نے اس طرح کی تفتیش کے کسی بھی مرحلے پر مشاہدہ کیا کہ قابل دست اندازی جرم کے لیے معقول شواہد دستیاب تھے تو وہ معاملہ متعلقہ اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو سی آر پی سی کی دفعہ 154 کے تحت ایف آئی آر کے اندراج اور قانونی کارروائی کے لیے بھیجے گا۔

اس کے بعد ایف آئی آر کے اندراج کے نتیجے میں تفتیشی ونگ کے ذریعہ اس طرح کی تحقیقات مکمل کی جائیں گی۔

آفیسر نے کہا کہ اگر کوئی شخص غیر فطری حالات کی وجہ سے مر جاتا ہے تو ریاست پر فرض ہے کہ وہ موت کا سبب معلوم کرے اور قصورواروں (اگر کوئی ہے) کو سزا دینے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ’کے 2‘ سر کرنے کے کتنے راستے ہیں؟

پاک فوج دنیا کی 10ویں طاقتور ترین فوج بن گئی

وہ تصویر جس نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا