طبی جریدے بی ایم جے میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کم کاربوہائیڈریٹس والی غذا کا 6 ماہ تک استعمال کرنے والے ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں میں اس پر قابو پانے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
تاہم اس غذا کو طویل المعیاد بنیادوں تک اپنانا مشکل ہوتا ہے تو ایک سال بعد اس کے فوائد ختم ہونے لگتے ہیں۔
خیال رہے کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں میں کاربوہائیڈریٹس کے حوالے سے عدم برداشت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی زیادہ مقدار جزوبدن بنانے سے بلڈشوگر لیول کی سطح بڑھتی ہے، جس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے انسولین یا ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں ذیابیطس ٹائپ 2 کے 13 سو سے زائد مریضوں پر ہونے والے 23 کلینکل ٹرائلز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔
ان افراد نے کم از کم 12 ہفتوں تک غذا میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار کو بہت کم رکھا تھا۔
کم کاربوہائیڈریٹس والی غذا سے مراد یہ ہے کہ دن بھر کی 26 فیصد کیلوریز کاربوہائیڈریٹس پر مبنی ہو جبکہ بہت کم میں 10 فیصد ہوتی ہے۔
ان افراد کی صحت، بلڈ شوگر لیول، جسمانی وزن میں کمی، معیار زندگی اور دیگر اثرات کی جانچ پڑتال 6 سے 12 ہفتوں تک کی گئی۔
محققین نے دریافت کیا کہ جن مریضوں نے کم کاربوہائیڈریٹس والی غذا کو اپنائے رکھا، ان میں 6 ماہ بعد بیماری سے نجات کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
اس قسم کی غذا کو استعمال کرنے والے افراد میں ذیابیطس سے نجات میں پیشرفت کی شرح 32 فیصد زیادہ دیکھی گئی۔
جن افراد نے اس قسم کی غذا کا استعمال جاری رکھا، ان کا جسمانی وزن بھی کم ہوا، صحت مند جسسمانی چربی کی شرح بڑھی اور ادویات کا استعمال کم ہوگیا۔
اس قسم کی غذا میں گریاں، زیتون کا تیل، بغیر چینی کی دودھ سے بنی مصنوعاتا، انڈے، پنیر، چکن اور مچھلی قابل ذکر ہیں۔