پاکستان

ای سی پی کمیٹی نے احتجاج سے ایک روز قبل مسلم لیگ (ن)، پی پی پی کو طلب کرلیا

پی ٹی آئی نے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف مقدمات کی روزانہ سماعت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو درخواست جمع کرادی، رپورٹ

اسلام آباد: جہاں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور دو اہم اپوزیشن جماعتیں ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کرنے کا ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہی ہیں وہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی نے غیر ملکی فنڈنگ کے کیسز میں ای سی پی آفس کے باہر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے منصوبہ بند احتجاج سے ایک روز قبل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو طلب کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں جن میں ان سے کہا گیا ہے کہ ان کے نمائندے بالترتیب دوپہر 12 بجے اور 2 بجے اسکروٹنی پینل کے سامنے پیش ہوں۔

ایک متعلقہ پیشرفت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف مقدمات کی روزانہ سماعت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو درخواست جمع کرادی ہے۔

درخواست جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے قانون ساز فرخ حبیب نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو چیلنج کیا کہ وہ اسکروٹنی کمیٹی کے طلب کردہ ریکارڈ پیش کریں۔

مزید پڑھیں: ای سی پی کا اسکروٹنی کمیٹی کو ہفتے میں 3 بار اجلاس کرنے کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا احتجاج ای سی پی پر دباؤ ڈالنے اور ممنوعہ فنڈنگ کے کیسز میں این آر او حاصل کرنے کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف درخواستیں 2017 میں دائر کی گئیں تاہم کمیٹی کے ساتھ فریقین کے عدم تعاون کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔

پی ٹی آئی کے ایم این اے نے الزام لگایا کہ دونوں جماعتیں ریکارڈ پیش کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ان کے اکاؤنٹ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوئے تھے۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے یہ وضاحت کرنے کو کہا کہ ان کے اکاؤنٹ میں 5 کروڑ سے 15 کرور روپے کی رقوم کہاں سے آئیں؟

ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے ٹریک ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سودی گروہوں سے رقوم وصول کررہے ہیں'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'یہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف ٹی ٹی کیس کے دوران سامنے آیا ہے کہ گجرات کے ایک بلڈر اور دیگر کنٹریکٹرز نے ان کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے جمع کروائے تھے'۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ بے نظیر بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس وقت کے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے نواز شریف کو فنڈز بھی ملے تھے۔

پی پی پی کی طرف اپنی توپوں کا رخ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایم این اے نے کہا کہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس کے سربراہان - آصف علی زرداری اور ان کی مرحومہ شریک حیات نے این آر او حاصل کرنے کے لیے لابیز کی خدمات حاصل کیں۔

انہوں نے کہا کہ مارک سیگل کو 1999 سے 2008 کے درمیان 3 لاکھ 40 ہزار ڈالر ادا کیے گئے تھے، مارک سیگل کے ساتھ آصف زرداری کے معاہدے کی ان کے پاس دستخط شدہ کاپی بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے فورا بعد قومی خزانے سے مارک سیگل اور ایسوسی ایٹس کو 60 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ادا کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے لابنگ کے نام پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اس شخص کی خدمات حاصل کیں۔

یہ بھی پڑھیں: ای سی پی کی قانون سازوں کو 31 دسمبر تک اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف کے ساتھ این آر او ڈیل کرنے میں بے نظیر بھٹو کی مدد کی تھی۔

‘پی ٹی آئی کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں’

پی ٹی آئی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری احمد جواد نے غیر ملکی مالی اعانت سے متعلق موقف سے پارٹی کے ہٹنے کے بارے میں تاثرات کو دور کردیا۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی ایجنٹس کی رجسٹریشن ایکٹ (ایف اے آر اے) کی تعمیل میں امریکا میں دو لمیٹیڈ لائیبلیٹی کمپنیوں (ایل ایل سی) کو شامل کیا تھا جس میں 'فارن پرنسپل' کی تعریف پیش کی گئی تھی کہ 'کوئی بھی شخص جو امریکا کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں مشغول ہے غیر ملکی پرنسپل کے مفاد کے لیے، اسے کسی ایجنٹ کو نامزد کرنا ہوگا'۔

اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کے جواب میں محض ایک 'خارجی پرنسپل' اور اس کے نامزد کردہ 'ایجنٹس' کے فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کی تھی جس میں ممبر شپ فیس اور اوور سیز پاکستانی کا کارڈ رکھنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے چندہ جمع کیا گیا تھا۔

افغانستان: پولیس چیک پوسٹوں پر طالبان کا حملہ، 9 اہلکار ہلاک

دو ملکوں نے مجھے فارن فنڈنگ کی پیشکش کی لیکن قبول نہیں کی، وزیراعظم

افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے، آرمی چیف