دو ملکوں نے مجھے فارن فنڈنگ کی پیشکش کی لیکن قبول نہیں کی، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس پر اپوزیشن کے احتجاج پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن سب کی فنڈنگ عوام کے سامنے رکھے، مجھے دو ملکوں نے فنڈنگ کی پیش کش کی تھی جو اب دونوں بڑی جماعتوں کو فنڈنگ کر رہے ہیں۔
نجی ٹی وی 'بول نیوز' کو ایک انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چین میں 30 برسوں میں کروڑوں عوام کو غربت سے نکالا گیا جس کا جائزہ لینا چاہیے۔
مزید پڑھیں: انصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل پولیس اہلکاروں کو کڑی سزا دی جائے، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ امریکا میں انتقال اقتدار کے حوالے سے اس لیے بات کرتا ہوں کہ وہاں ہر محکمہ کی بریفنگ دی جاتی ہے اور اس کے لیے پہلے سے تیاری کی جاتی ہے۔
پارلیمانی اور صدارتی نظام حکومت سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت جاگیردارانہ نظام ہے جس کا مطلب ہے نام جمہوریت کا لیتے ہیں لیکن خاندان حکمران بن جاتے ہیں اور 25 سالہ نوجوان والدہ کی وصیت پر آجاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائیوں کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) میں کوئی اور نہیں اور شریف خاندان اور ان سب کے بچے باریاں لیتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے اندر اصل جدوجہد جمہوریت کی ہے اور ان دونوں خاندان پہلے کیا کیا تھا جبکہ حکومت میں آنے کے بعد کہاں پہنچے۔
'الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ عوام کے سامنے رکھے'
فارن فنڈنگ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم والوں نے اچھا کیا کہ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ پر آگئے ہیں کیونکہ یہ دھاندلی کہتے تھے اور کہیں نہیں جارہے تھے تو ہم نے شروع میں سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ فافین سمیت سب کہہ رہے تھے کہ انتخابات ٹھیک تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں بڑا خوش ہوں اور الیکشن کمیشن سے درخواست کرتا ہوں کہ ہماری رپورٹ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمٰن کی شیٹ سامنے رکھیں جس سے دودھ کا دوھ اور پانی کا پانی ہوگا کیونکہ ان کی فنڈنگ کوئی نہیں، یہ بڑے لوگوں کو پکڑتے ہیں اور حکومت میں آکر ان کو پیسے پورے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں گارنٹی کرتا ہوں کہ ان دونوں نے باہر کے ملکوں سے پیسہ لیا ہے، ہم پاکستان کی تاریخ میں پہلی پارٹی ہیں جس نے سیاسی فنڈ ریزنگ کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور برطانیہ میں سب جماعتیں سیاسی فنڈ ریزنگ کرتی ہیں، وہ ڈنرز کرتے ہیں اور ان کی پلیٹس کے اندر اتنا پیسہ ہوتا ہے اور اس طرح پیسے جمع کرتے ہیں، کیونکہ میرا تجربہ ہے اور یہاں لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا، پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی نے عوام سے سب سے زیادہ پیسہ جمع کیا ہے تو وہ میں نے کیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے شوکت خانم کے لیے پیسہ اکٹھا کرنا شروع کیا اور اور پیسہ جمع کرنا سیکھا، آدھے سے زیادہ پیسہ بیرون ملک موجود ہمارے پاکستان دیتے تھے، ہماری بڑی طاقت پاکستانی باہر بیٹھی ہوئی ہے، ہم ڈنر کرتے تھے جہاں وہ آتے تھے اور ڈنر میں پیسہ اکٹھا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سب کچھ باقاعدہ آڈٹ کیا ہوا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آپ دیکھیں گے تو 40 ہزار ہمارے نام ہوں گے جنہوں نے پیسے دیے ہوئے ہیں اور یہ وہ نام نہیں ہوں گے جو چینی والا، پاپڑ والا اور اب سندھ کے اندر ایک اور گیم نکل آئی ہے پنشن کے اوپر بہت بڑا گھپلا ہوا ہے، جعلی ناموں پر 2 ارب روپے پنشن میں چلے گئے ہیں۔
فارن فنڈنگ پر بات جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے سارے ان لوگوں سے رابطہ کریں تو وہ بتائیں گے کہ ہم نے فنڈ ریزنگ ڈنر میں شرکت کی، 40 ہزار ہمارے نام ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کھول دیا ہے تو میں چاہوں گا اب یہ سب عوام کے سامنے آنا چاہیے کہ پی ٹی آئی نے اپنا پیسہ کیسے اکٹھا کیا، ہمارے سارے اکاؤنٹ آڈٹ کیے ہوئے ہیں، جو فارن فنڈنگ کر رہے ہیں وہ بیرون ملک پاکستانی ہیں اور ان کے اکاؤنٹ بھی عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔
'مجھے فنڈنگ کی پیشکش کرنے والے ممالک ان کو فنڈنگ کر رہے ہیں'
وزیراعظم نے کہا کہ 'میں جانتا ہوں کہ ان کو کیوں باہر کی فنڈنگ ہوئی کیونکہ مجھے دو ملکوں نے فارن فنڈنگ کی پیش کش کی تھی اور اگر لی ہوتی تو میں اس اعتماد کے ساتھ اس طرح نہیں بیٹھا ہوتا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے پتا ہے وہ دونوں ملک جنہوں نے مجھے پیش کش کی تھی وہ ان کو فنڈنگ کر رہے ہیں، ان میں اسرائیل شامل نہیں ہے لیکن نام اس لیے نہیں بتا سکتا کہ ان کے ساتھ تعلقات ہیں جو خراب ہوجائیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'شیخ رشید بتا سکتے ہیں جب وہ مسلم لیگ (ن) میں تھے اور نواز شریف کےساتھ گئے تو کن کن ملکوں نے ان کو پیسہ دیا'۔
'ٹرمپ بھی دھاندلی کا الزام لگا رہا ہے'
انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کا واحد سیاست دان ہوں جو جی ایچ کیو کی نرسری میں نہیں پلا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کو جب ایوب خان نے اٹھایا تو باقی ساری کابینہ جرنیلوں کی تھی واحد ذوالفقار علی بھٹو سویلین وزیر تھا اور 8 سال وہ ایک ڈکٹیٹر کی کابینہ میں رہا پھر پیپلزپارٹی بنائی، اور نواز شریف کو ملٹری کی نرسری میں بال کر بڑا کیا آج وہ سپر ڈیموکریٹ بن رہا ہے۔
اپوزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان کی طرح کہتا ہے کہ دھاندلی ہوئی اور انتخابات نہیں مانتا اور سارا میڈیا کہتا ہے کہ وہ ثبوت نہیں دیتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایک ملک کا حکمران جوابدہ اور قانون کے نیچے نہیں ہوگا تو ملک کبھی آگے نہیں جائے گا، جب میں اقتدار میں آکر کرپشن کروں گا تو میں ملک کو تباہ کردوں گا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے غریب ترین ملک میں کرپشن ہے اور یہ کرپشن پٹواری یا تھانوں کی کرپشن نہیں ہے بلکہ جب وزیراعظم کرپشن کرتا ہے تو وہ ملک کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حالات پیمرا سے کہیں آگے نکل گئے ہیں، پیمرا تو ایک چھوٹی چیز ہے اور یہ اندھیرے والا وقت ہے، پاکستان کا ہر ادارہ انہوں نے تباہ کردیا اور ہر جگہ دو نمبر لوگوں کو بٹھا دیا گیا ہے، جب وزیراعظم اور ان کے وزرا کا احتساب نہیں ہوتا اور انہیں خوف نہیں ہو کہ چوری کریں تو پکڑے جائیں گے تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کے خوش حال ملک میں کرپشن نہیں ہوگی اور غریب ممالک میں نواز شریف اور زرداری بیٹھے ہوئے ہیں جو ملک کا پیسہ باہر لے کر جاتے ہیں، اگر عمران خان منی لانڈرنگ کرکے پیسے باہر لے جاتا ہے تو دوسروں کو کیسے روک سکتا ہوں۔
'گارنٹی کرتا ہوں یہ واپس نہیں آئیں گے'
اپوزیشن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں گارنٹی کرتا ہوں کہ یہ واپسی نہیں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'سڑکوں پر ہو کیا رہا ہے مولانا فضل الرحمٰن کو مولانا کہنا جرم ہے، اس کی جائیداد سامنے آرہی ہیں اور کہتا ہے میں جوابدہ نہیں ہوں، ان چوروں کا مسئلہ ہے کہ ان سے کہیں اربوں روپے کی جائیداد کہاں سے آئی جواب دیں تو کہتے ہیں باقی دنیا بھی کرپٹ ہے'۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کہتا ہے کہ آرمی چیف بھی بتائے، ایک آدمی جس کا کوئی کاروبار نہیں اور خود کو مولانا کہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ مولوی ہے بھی یا نہیں پتہ نہیں، اس کی پراپرٹی اور پیسہ کہاں سے آیا، ہر حکومت میں گھسا ہوا تھا، پہلی دفعہ ہے کہ ڈیزل کے بغیر اسمبلی چل رہی ہے، یہ سارے مل کر مجھے کہہ رہے ہیں اگر آپ کو اور آپ کی حکومت کو آگے چلنا ہے تو این آر او دے دو'۔
این آر او مانگنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ فیٹف پر اپوزیشن نے تحریری طور پر این آر او مانگا اور ہمارے لوگوں کو پیغامات بھیجتے رہے ہیں اور مذاکرات کیا ہیں کہ چوری معاف کریں۔
عمران خان نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں اگر اصلاحات کرنا چاہتے ہیں تو جب تک بھاری اکثریت نہیں ہو اس وقت تک نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے مشکلات آتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک کمزور حکومت کو اتحادیوں کو سنبھالتے ہوئے اصلاحات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور حکومت ان لوگوں کو چھوڑ دینا چاہیے جن کو مقابلہ کرنا نہیں آتا ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ جنرل مشرف آرمی چیف، حکومت کا سربراہ، عدلیہ ان کے کنٹرول میں، امریکا کی پشت پناہی، باہر سے پیسہ آرہا ہے، یعنی اس سے طاقت ور تو کوئی نہیں تھا، میرے پاس تو وہ طاقت نہیں ہے اور نیب اس کی اپنی، میرے کنٹرول میں نیب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پرویز مشرف نے گھٹنے ٹیکے اور پہلے نواز شریف کو این آر او دیا، ایک کلثوم نواز نکلی تو اتنا طاقت ور پرویز مشرف نے این آر او دے دیا اور اس کو سعودی عرب بھیج دیا دوسرا وکیل نکلے، آصف زرداری کے سوئٹزرلینڈ میں پڑے ہوئے 60 ملین ڈالر اور ایک سرے محل جو زرداری نے اسمبلی میں کہا تھا میرا نہیں ہے، اس پر ایک ارب روپے پاکستانی حکومت نے باہر وکیلوں پر خرچ کیا اور یوں پہلے نواز شریف پھر زرداری کو این آر او دیا۔
عمران خان نے کہا کہ جب سرے محل فروخت ہوا تو پیسہ حکومت کو آنا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے انکار کیا تھا لیکن این آر او سے وہ پیسہ بھی ادھر گیا، یہ پیسہ اور جو 60 ملین ڈالر سوئٹزرلینڈ میں پڑا ہوا تھا وہ بھی ہضم کر گیا۔
'رابطہ ظفر سے ہوا براڈ شیٹ سے نہیں ہوا'
وزیراعظم نے کہا کہ براڈ شیٹ سے کیا نکلا ہے، وہ شور یہ مچا رہا ہے کہ ہم نے ان کے اثاثوں کو ڈھونڈ نکالا لیکن حکومت نے این آر او دے کر کہا پیچھے ہٹ جاؤ اور آج ہمیں پتہ نہیں کتنے ارب روپے دینا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ ظفر نام کا ایک آدمی ایک دفعہ ملا تھا اور جب شروع میں ہماری حکومت آئی تھی تو میں بھول رہا ہوں انہوں 20 ارب ڈالر کہا تھا، اس نے کہا کہ آپ کی جائیدادیں باہر پڑی ہوئے ہیں اور آپ اجازت دیں میں ان کو بے نقاب کروں اور اس میں ایک پرسنٹیج دیں، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ براڈ شیٹ کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا ہم اس موسوی سے کہیں گے کہ پوری تفصیلات دیں اور اب حکومت ان سے تفصیلات مانگے گی اور پتہ چلایا جائے گا کیا ہوا۔
عمران خان نے کہا کہ ظفر نے مجھے نہیں کہا تھا کہ وہ براڈ شیٹ کا آدمی ہے بلکہ کہا میں وکیل ہوں اور اب کہہ رہے ہیں اور رابطہ تو ظفر نامی شخص سے ہوا تھا، براڈ شیٹ سے نہیں ہوا تھا یہ تو ابھی مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ براڈ شیٹ کا حصہ ہے اور اب ہم ان سے حساب مانگیں گے۔
'ندیم افضل سے استعفیٰ نہیں مانگا'
ندیم افضل چن کے استعفے پر انہوں نے کہا کہ میں نے کسی سے استعفیٰ نہیں مانگا اور جس نے بھی یہ کہا ہے جھوٹ بولا ہے اور میں نے کابینہ میں واضح طور پر کہا تھا کہ اختلاف رائے کابینہ میں کریں اور جب فیصلہ ہوجائے تو اس سے روگردانی نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے باتیں باہر آتی ہیں یہ نہیں ہونا چاہیے، ہم دیکھیں گے مسائل کہاں ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کے سعودی عرب جانے کا معلوم نہیں لیکن اتنا پتہ ہے کہ اسحٰق ڈار نے سیاسی پناہ لی ہے اور وہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں باہر گیا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ خواجہ آصف کو بہت پہلے جیل میں جانا چاہیے تھا کیونکہ ایک ملک کا وزیر دفاع اور وزیر خارجہ دبئی کی کمپنی سے پیسے لے رہا ہے، ادھر نواز شریف وزیراعظم نوکری کر رہا ہے اور احسن اقبال نے اقامہ لیا ہوا ہے، کوئی اس کی مثال نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اپوزیشن نہیں اور سیاست دان نہیں، جمہوریت میں اپوزیشن کی بڑی حیثیت ہوتی ہے لیکن یہ جو اوپر بیٹھے ہیں اور تقاریر کرتے ہیں وہ کریمنلز اور بلیک میلر ہیں، ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم ان کو اپوزیشن اور ڈیموکریٹس کی حیثیت سے دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے کبھی کسی پر ذاتی حملہ نہیں کیا، میں ہمیشہ ان کو کرپٹ اور چور کہتا ہوں جو یہ ہیں، اس کو یہ گالی کہتے ہیں، چلیں میں ان کو اچھی طرح مسٹر ڈاکو کہتا ہوں لیکن ان سے بڑے کوئی ڈاکو نہیں ہیں، یہ ذاتی حملے کرتے ہیں اور اس سے سیاست کو نیچے لے جاتے ہیں'۔
'پچھلے سینیٹ انتخابات میں مجھے 5 کروڑ کی پیشکش ہوئی تھی'
سینیٹ انتخابات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اوپن بیلٹ کے لیے عدالت میں ہیں اور پیپلزپارٹی کا رضا ربانی چیلنج کر رہا ہے کہ اوپن بیلٹ نہیں ہونا چاہیے، سب کو پتہ ہے کہ اس میں پیسہ چلتا ہے، مجھے پتہ ہے پچھلے سینیٹ کے الیکشن میں مجھے کتنی پیش کش ہوئی تھی، 5 کروڑ کی تب پیش کش تھی تو میں تو بڑے پیسے بنا سکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام اور مولانا فضل الرحمٰن کہتا ہے کہ اوپن بیلٹ نہیں ہونا چاہیے، سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ پیسہ مولانا فضل الرحمٰن نے بنایا، اس کی پارٹی سے باہر سے لوگ آکر پیسے دے کر سینیٹ میں منتخب ہوتے ہیں۔
اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم عدالت میں کہہ رہے ہیں پاکستان میں اوپن بیلٹ ہونی چاہیے اور کھلے عام جو رشوت ہو رہی ہے وہ نہیں ہونی چاہیے، میثاق جمہوریت میں انہوں نے بھی کہا اوپن بیلٹ ہونی چاہیے، اب رضا ربانی جا کر کہتا ہے نہیں ہونی چاہیے، یہ سب منافقت ہو رہی ہے۔