جنوبی افریقہ سے ٹیسٹ سیریز کیلئے قومی ٹیم کا اعلان، 9 نئے کھلاڑی شامل
جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے قومی ٹیم کا اعلان کردیا گیا ہے، شان مسعود، محمد عباس اور حارث سہیل سمیت نیوزی لینڈ کا دورہ کرنے والی ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کو ڈراپ کرتے ہوئے 9 نئے کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا ہے۔
قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جو بھی سلیکشن کریں گے تو کوشش کریں گے کھلاڑی کو معلوم ہو کہ اس کا ٹیم میں کیا کردار ہے اور ہماری موجودہ ٹیم میں کس طرح کی بیٹنگ درکار ہے۔
مزید پڑھیں: محمد عامر موجودہ مینجمنٹ کے ساتھ نہ کھیلنے کے فیصلے پر قائم
پاکستان نے نیوزی لینڈ کا دورہ کرنے والی ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کو ہوم سیریز کے لیے اسکواڈ کا حصہ نہیں بنایا اور اس کی جگہ پہلی مرتبہ بطور چیف سلیکٹر ٹیم منتخب کرنے والے محمد وسیم نے ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی دکھانے والوں کو اسکواڈ میں شامل کیا ہے۔
پاکستان نے دورہ نیوزی لینڈ پر قومی ٹیم کا حصہ بننے والے نسیم شاہ، محمد عباس، حارث سہیل، امام الحق، ظفر گوہر اور شان مسعود اسکواڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کیے گئے 9 کھلاڑی ایسے ہیں جو اب تک ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی نہیں کرسکے۔
ان 9 نئے کھلاڑیوں میں اوپنرز عبداللہ شفیق اور عمران بٹ کے علاوہ مڈل آرڈر بیٹسمین کامران غلام، سلمان علی آغا اور سعود شکیل سمیت اسپنرز نعمان علی، ساجد خان، فاسٹ باؤلرز تابش خان اور حارث رؤف شامل ہیں۔
ان کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک سیزن 21-2020 میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بدولت قومی اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
قومی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔
بابر اعظم (کپتان)، محمد رضوان(نائب کپتان)، عابد علی، عمران بٹ، اظہر علی، فواد عالم، سرفرازاحمد، فہیم اشرف، یاسر شاہ، شاہین شاہ آفریدی، عبداللہ شفیق، آغا سلمان، سعود شکیل، کامران غلام، محمد نواز، نعمان علی، ساجد خان، حسن علی، حارث رؤف اور تابش خان۔
یہ بھی پڑھیں: مصباح الحق کو ہٹانے کا فیصلہ، اینڈی فلاور سے معاہدہ ہو چکا ہے، شعیب اختر
محمد وسیم نے کہا کہ یہ ہمارا 20 رکنی اسکواڈ ہے جو بائیو سیکیور ببل کا حصہ ہو گا اور ٹیسٹ سیریز سے قبل 16رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا جائے گا اور وہ کھلاڑی ڈریسنگ روم کا حصہ ہوں گے۔
شان مسعود کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے محمد وسیم نے کہا کہ اوپننگ بلے باز نے ماضی میں رنز کیے ہیں لیکن موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے ہم نے انہیں ٹیسٹ کرکٹ سے وقفہ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ان کے اعدادوشمار بھی زیادہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ جو بھی کھلاڑی اب ٹیم کا حصہ نہیں ہیں ہم ان کے لیے منصوبے بنا رہے ہیں کہ اب انہوں نے کرنا کیا ہے، نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر کا کوچنگ اسٹاف ہماری مینجمنٹ سے مشاورت کے بعد اس پر کام کررہا ہے جس کے بعد ان کا بقاعدہ منصوبہ بنایا جائے گا تاکہ یہ اپنے مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکیں اور واپس آ کر اپنی کارکردگی سے ٹیم میں دوبارہ جگہ بنا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حارث سہیل کے اعدادوشمار بھی ان کے اصل ٹیلنٹ کی عکاسی نہیں کرتے اور ان کے بھی تکنیکی مسائل نظر آ رہے ہیں جن پر کام ہونے والا ہے اور ان کے لیے بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔
چیف سلیکٹر نے کہا کہ محمد عباس نے انٹرنیشنل کرکٹ میں آتے ہی اپنی عمدہ کارکردگی سے پاکستان کو متعدد میچز جتوائے لیکن موجودہ فارم کو دیکھا جائے تو باقی ٹیموں نے ان کے خلاف کام کر لیا ہے جس کی وجہ سے ان کا اسٹرائیک ریٹ تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پی سی بی کرکٹ کمیٹی اجلاس، کھلاڑیوں کو سائنسی بنیاد پر تیار کرنے پر زور
ان کا کہنا تھا کہ ہر ٹیم چاہتی ہے کہ نئے گیند کا باؤلر وکٹیں لے کر دے اور بہتر اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ باؤلنگ کرے تو یہاں بھی کچھ خامیاں نطر آ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام الحق کے اعدادوشمار بھی ان میں موجود ٹیلنٹ کی اصل منظر کشی نہیں کرتے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ابھی ٹیسٹ کرکٹ کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ انجری کا بھی شکار رہے ہیں اور اگر یہ اپنے تکنیکی مسائل دور کر کے ڈومیسٹک کرکٹ میں دوبارہ کارکردگی دکھاتے ہیں تو ان کی قومی ٹیم میں شمولیت پر غور کیا جا سکتا ہے۔
محمد وسیم نے کہا کہ شاداب خان اور نسیم شاہ فٹنس مسائل کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں جبکہ ہم اب کنڈیشنز کے حساب سے کھلاڑیوں کا انتخاب کررہے ہیں اس لیے سہیل خان کے لیے یہ کنڈیشنز موزوں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ظفر گوہر نے نیوزی لینڈ میں ڈیبیو کیا اور ایک میچ کھلا کر انہیں ڈراپ کیا جا رہا ہے کیونکہ میرا ماننا ہے کہ انہیں ٹیسٹ کرکت کے لحاظ سے ابھی زید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ٹیم میں شامل کیے گئے کھلاڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حسن علی نے انجری کے بعد جس طرح ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی کی اور جس سے اپنی ٹیم کو اٹھایا، یہ وہ چیز تھی جس کی پاکستان کرکٹ میں کمی محسوس ہورہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حسن علی ننے گیند اور بلے سے بہترین کھیل پیش کیا اور ہمیں امید ہے کہ ہمیں ان سے ٹیسٹ سیریز میں وہی کارکردگی دیکھنے کو ملے گی جس کا مظاہرہ وہ قائد اعظم ٹرافی میں کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی سی سی پول میں وزیراعظم عمران خان بہترین کرکٹر قرار
ان کا کہنا تھا کہ سعود شکیل ان کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو پورے سسٹم سے نکل کر آئے ہیں اور ہر سطح پر انہوں نے کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
چیف سلیکٹر نے کہا کہ سعود ہپر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہوتے جا رہے ہیں، جدید دور کی کرکٹ میں بلے بازوں کو بہتر اسٹرائیک ریٹ سے کھیلنے کی ضرورت ہے تو سعود ان چند کھلاڑیوں سے ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آغا سلمان کے اعدادوشمار بھی بہت بہترین رہے ہیں اور وہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ آف اسپن باؤلنگ بھی کر لیتے ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ میں انہیں اسکوار کارڈ چلانا آتا ہے اور وہ ٹیل اینڈرز کے ساتھ بیٹنگ کرنے کا فن جانتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نعمان علی ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھاتے رہے ہیں اور اس وقت پاکستان میں سب سے بہترین بائیں ہاتھ کے اسپنر ہیں اور اس بات کو انہوں نے ثابت کیا ہے اور نعمان علی میں میچ ونر باؤلر والی صلاحیت موجود ہے۔
محمد وسیم نے کہاکہ کامران غلام نے نہ صرف ریکارڈ رنز اسکور کیے بلکہ ان میں ٹیلنٹ نظر آتا جس کا مظاہرہ وہ قائد اعظم ترافی میں کر چکے ہیں اور جس طرح کی کارکردگی کا وہ مظاہرہ کر چکے ہیں، اس کی بنیاد پر وہ ٹیم میں جگہ بنانے کے حقدار تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آف اسپنر زیادہ نہیں آ رہے لیکن ساجد خان ان کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس فن کو زندہ رکھا ہوا ہے، پچھلے سال بھی ان کی کارکردگی بہترین رہی اور اس سال بھی وہ بہترین باؤلر رہے لہٰذا ان کی جو فارم ہے اس کو دیکھتے ہوئے کپتان کو ٹیم بناتے ہوئے ایک اضافی آپشن دستیاب ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ تابش خان گزشتہ 5سال سے مستقل بہترین کارکردگی دکھاتے رہے ہیں، پہلے یہ بحث ہوتی تھی کہ شاید وہ جس گیند سے کارکردگی دکھاتے ہیں اس کی وجہ سے زیادہ وکٹیں لیتے ہیں لیکن گزشتہ 2سال کے دوران وہ کوکابورا گیند سے بھی مستقل کارکردگی دکھا رہے ہیں لہٰذا وہ جگہ پانے کے مستحق ہیں۔
مزید پڑھیں: فٹ ہوں، جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کھیلوں گا، بابر اعظم
محمد وسیم نے کہا کہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس محمد عباس کی فارم اچھی نہیں ہے تو ایسے میں تابش خان وہ باؤلر ہیں جو ان کی جگہ لے سکتے ہیں اور وہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ محمد نواز کی بیٹنگ اور باؤلنگ میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے انہیں اسپن باؤلنگ آل راؤنڈر کے طور پر اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے اور عبداللہ شفیق ہمیں ٹیسٹ کرکٹ کے لیے زیادہ موزوں لگے اس لیے انہیں اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔
حارث رؤف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چیف سلیکٹر نے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ہمارے پاس فاسٹ باؤلنگ میں زیادہ آپشن دستیاب نہیں ہیں، محدود اوور کی کرکٹ میں پھر بھی ہمارے پاس آپشن موجود ہیں تو اس وقت ہمیں ایک ایسا باؤلر چاہیے جو تھوڑا جارح مزاج ہو، جس کی رفتار اور ریورس سوئنگ ہو تو وہ ایک باؤلر حارث رؤف ہے جس کا مظاہرہ وہ پچھلے سال ڈومیسٹک کرکٹ میں کر چکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں محمد وسیم نے کہا کہ نسیم شاہ تو انجری کا شکار ہونے کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں لیکن اگر ظفر گوہر کی بات کی جائے تو دیگر اسپنرز کی کارکردگی ان سے بہتر ہے، ابھی وہ کھلاڑی تیار نہیں ہے تو ہم انہیں تھوڑا اور وقت دینا چاہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں پہلے چیف سلیکٹر نہیں تھا تو میرے پاس فیصلے کرنے کا اختیار نہیں تھا، میں آگے کی بات آپ سے کھل کر کر سکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ٹیم ہوم سیریز میں کنڈیشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے، جب ٹیم زمبابوے یا انگلینڈ جائے گی تو وہاں کی کنڈیشنز کے حساب سے بہترین دستیاب آپشنز کو استعمال کریں گے۔
چیف سلیکٹر نے کہا کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم ہلکی نہیں ہے، ان کے فاسٹ باؤلرز اور اسپنرز میں کسی بھی کنڈیشن میں کارکردگی دکھانے کی صلاحیت موجود ہے، ہماری کوشش یہی ہے کہ بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہوئے ہوم کنڈیشنز کا فائدہ اٹھا سکیں لیکن چیلنج ہمارے لیے یہی ہے کہ بڑی ٹیموں کے خلاف ہماری فتوحات کا سلسلہ شروع ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: 15 سے 20 دن بند رہنے کے بعد ٹاپ ٹیم کو شکست نہیں دی جاسکتی، مصباح الحق
وسیم خان نے یاسر شاہ کی سلیکشن اور زاہد محمود کو منتخب نہ کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یاسر کی کارکردگی میں یقیناً تسلسل نہیں ہے، اس پر ہماری نظر بھی ہے اور خود یاسر بھی اس بات کو جانتے ہیں لیکن ہوم سیریز ہے تو امید ہے ان کے جتربے سے ہمیں فائدہ حاصل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ہمیں تجربہ کار کھلاڑیوں کی ضرورت ہے، اگر کچھ ایسی صورتحال بنتی ہے کہ یاسر کی جگہ زاہد ٹیم میں آ جاتے ہیں اور ان اسپنرز میں سے کوئی اور کھیلتا ہے تو میچ جتانے کی تمام تر ذمے داری ان دونوں ناتجربہ کار اسپنرز پر آ جاتی ہے، یاسر کے پاس اس سیریز میں موقع ہے کہ وہ اپنا لوہا منوائیں لیکن زاہد ہمارے منصوبوں کو حصہ ہیں جو نہ صرف ٹیسٹ کرکٹ بلکہ محدود اوورز کی کرکٹ میں بھی ہمارے منصوبوں کا حصہ ہے۔