برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں سامنے آنے والی اقسام کی طرح امریکا میں جن اقسام کو دریافت کیا گیا ہے، ان میں ہونے والی میوٹیشنز بھی اسے زیادہ متعدی بناتی ہیں۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے ان نئی اقسام کو ایک تحقیق میں دریافت کیا، جس کے مکمل نتائج ابھی شائع نہیں ہوئے۔
امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس نئی تحقیق کا جائزہ لے رہا ہے۔
دونوں میں سے ایک قسم تو فی الحال ابھی اوہائیو کے صرف ایک مریض میں دریافت ہوئی ہے، جس میں ایک میوٹیشن بالکل ویسی ہے جیسی برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم میں دیکھی گئی۔
محققین کے مطابق ممکنہ طور پر یہ امریکا میں پہلے سے موجود وائرس کی کسی قسم میں آنے والی تبدیلی ہے۔
تاہم دوسری قسم جسے کولمبس اسٹرین کا نام دیا گیا، وہ محققین کے مطابق شہر میں دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ پھیل چکی ہے۔
اس نئی قسم میں 4 ایسی جینیاتی میوٹیشنز کو دریافت کیا گیا جو نئے کورونا وائرس میں اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی تھیں۔
محققین نے بتایا کہ نئی کولمبس اسٹرین میں جینیاتی ریڑھ کی ہڈی تو ابتدائی کیسز جیسے ہی ہیں، مگر جو 3 میوٹیشنز ایک نمایاں ارتقا کی نمائندگی کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ میوٹیشنز برطانیہ یا جنوبی افریقی اقسام سے تعلق نہیں رکھتیں۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ویکسنر میڈیکل سینٹر میں مارچ 2020 سے کورونا وائرس کی سیکونسنگ کی جارہی ہے، مگر اس کام کی رفتار کو بڑھایا گیا ہے اور ہر ہفتے سیکڑوں نمونوں کے سیکونسز بنائے جارہے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ وبا اب اس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، جب وائرس خود کو نمایاں حد تک بدل رہا ہے، ہم ان تبدیلیوں کا آغاز دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا اس وقت ہورہا ہے جب ویکسینز متعارف ہوچکی ہیں جبکہ وائرس کو انسانی آبادی میں چند ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے، ہمیں بہت احتیاط سے نہ صرف ہر میوٹیشن بلکہ نئی اقسام کا جائزہ لینا ہوگا، جن میں متعدد میوٹیشنز ہوئی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تعین کرنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ نئی قسم کتنی متعدی ہے، مگر گزشتہ چند ہفتوں میں وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ دیگر اقسام سے زیادہ متعدی ہے۔