’حکومت ہماری مدد کرے، ہم 20 ارب ڈالر کی برآمدات کی ضمانت دیتے ہیں‘
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک 39 سالہ ٹیکسی ڈرائیور طارق محمود کے لیے 2 سال پہلے کی زندگی آج کی طرح مشکل نہیں تھی۔ وہ ہفتے میں 7 دن روزانہ 12 گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن اپنے کنبے کی دال روٹی پوری کرنے کے بعد شاذ و نادر ہی چند سو روپے (کچھ امریکی ڈالر) سے زیادہ بچت کر پاتے ہیں۔
محمود نے کہا کہ انہوں نے پچھلے 14 سالوں میں اپنی گھٹتی ہوئی آمدنی کی وجہ سے اتنی مایوسی کبھی محسوس نہیں کی۔ ان جیسے ٹیکسی ڈرائیوروں کے نزدیک اصل مجرم کورونا وائرس نہیں ہے کہ جس نے کاروبار بند کردیے تھے اور نہ ہی مشترکہ سواری کی سروسز کی آمد ہے جس نے صارفین کو ان سے دُور کردیا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
محمود نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ’میں خاندان کے لیے خوراک کے اخراجات کے بعد اپنے بچے کی تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتا‘۔ محمود اسلام آباد کے نواح میں ایک مشترکہ خاندانی گھر میں رہائش پذیر ہیں جہاں کورونا کی وجہ سے اس وقت سرکاری اسکول بند ہیں، اور وہ ان نجی اسکولوں کی فیس بھرنے سے قاصر ہیں جو اپنے طلبہ کو آن لائن کلاسیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’لاک ڈاؤن کے دوران میری ساری بچت ختم ہوگئی ہے اور اب میں قرض کے بوجھ تلے دب گیا ہوں‘۔
خوراک کی بڑھتی قیمتیں
محمود کی روزانہ آمدنی 1500 سے 2 ہزار روپے (9 سے 12 امریکی ڈالر) ہے، جس کا نصف سے زائد حصہ کھانے پر خرچ ہوجاتا ہے۔ لاکھوں پاکستانی اسی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگست 2019ء سے پاکستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمت میں اضافے کی شرح دو ہندسوں میں ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کے اعداد و شمار کے مطابق شہری علاقوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں اشیائے خور و نوش کی قیمت 10 سے 19 فیصد اور دیہی علاقوں میں 12 سے 23 فیصد زیادہ رہی ہیں۔ نومبر کے دوران شہروں میں غذائی قیمتوں میں 13 فیصد اور دیہی علاقوں میں تقریباً 16 فیصد اضافہ ہوا۔
ماہرِ اقتصادیات اور سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ’اس سال کے آخر تک ملک میں غریبوں کی تعداد 7 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ حفیظ پاشا نے کہا کہ 2013ء سے 2018ء تک 2 کروڑ سے زیادہ افراد کے معیارِ زندگی میں بہتری آئی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 7 کروڑ 50 لاکھ سے کم ہوکر 5 کروڑ 50 لاکھ ہوگئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں استحکام اور فی کس آمدنی میں اضافے کے پیچھے بنیادی عوامل تھے‘۔ وہ فوائد اب معدوم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ لاکھوں افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعداد و شمار، حفیظ پاشا کے دعوے سے قدرے متصادم ہیں کیونکہ یہ 2017ء اور 2019ء کے درمیان بے روزگاری میں کمی کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ اب اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں بے روزگاری
گلوبل ہنگر انڈیکس 2020ء میں شامل 107 ممالک میں سے پاکستان 88ویں نمبر پر ہے۔
اسٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان ورلڈ رپورٹ برائے 2020ء کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کا پھیلاؤ تقریباً 12 فیصد ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد غذائیت کی کمی یا غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
پاکستان میں ایف اے او کی نمائندہ مینا دولتچاہی نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ’پاکستان میں خوراک تک رسائی زیادہ تر آبادی کی آمدنی سے منسلک ہے۔ کورونا کی وجہ سے آمدنی میں ہونے والے نقصان سے خوراک کے عدم تحفظ میں اضافہ ہوسکتا ہے‘۔
مینا نے کہا کہ حالیہ آمدنی اور روزگار میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے گھرانوں کی قوتِ خرید میں کمی آئی ہے۔ مہنگی اشیائے خور و نوش سے قوتِ خرید کم ہوگی، جس کی وجہ سے خوراک سے متعلق عدم تحفظ میں اضافہ ہوگا اور غذا سے متعلق امراض پیدا ہوں گے۔
سیاسی مسئلہ
جنوری میں افراطِ زر کی شرح 9 سال کی بلند ترین سطح پر تقریباً ساڑھے 14 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اور وزیرِاعظم عمران خان نے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ کیا تھا۔
حزبِ اختلاف کا 11 جماعتی اتحاد عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے تحریک شروع کر رہا ہے اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اس میں ایندھن کا کام کررہا ہے۔
وزیر برائے غذائی تحفظ سید فخر امام نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ’حکومت مہنگی غذائی اشیا کے اثرات سے پوری طرح واقف ہے، خاص طور پر پاکستان میں کم آمدنی والے طبقوں پر‘۔
انہوں نے کہا کہ ’احساس پروگرام میں ایک کروڑ 60 لاکھ خاندان شامل ہیں۔ ان میں 12 ہزار روپے (75 امریکی ڈالر) فی خاندان تقسیم کیے گئے ہیں اور اس سے کم آمدنی والے طبقے کی مشکلات کچھ حد تک دُور ہوگئیں ہیں‘۔
حکومت کے احساس پروگرام کا مقصد عدم مساوات کو کم کرنا اور ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے وعدے کے مطابق عوام پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اس میں 100 سے زیادہ پالیسی اقدامات ہیں جن میں نقد امداد، صحت، خوراک اور رہائش کی فراہمی شامل ہے۔ غریب اور شدید متاثرہ خاندانوں کو نقد گرانٹ کی شکل میں فوری امداد کی پیش کش کے لیے مارچ میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے درمیان احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا گیا تھا۔
فخر امام نے کہا کہ حکومتی پالیسیاں خاص طور پر اشیائے ضروریہ کی سبسڈی سے ’غذائی عدم تحفظ کو بہت حد تک کم کیا گیا ہے‘۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) نامی تھنک ٹینک کے سربراہ عابد قیوم سلیری نے کہا کہ حکومت کو اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کم آمدنی والے افراد کو اپنی کمائی کا بڑا حصہ خوراک پر خرچ کرنا پڑتا ہے اس لیے ’وسائل کی اس طرح تقسیم کے بجائے ایک ہدف طے کرتے ہوئے سبسڈی ملنی چاہیے کیونکہ رجعت پسند اثرات کی وجہ سے اشیائے خور و نوش کی مہنگائی یقینی طور پر خوراک کے عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے‘۔
عابد قیوم نے مزید کہا کہ حکومت نے آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے گندم پر 98 ارب روپے (تقریباً 6 کروڑ امریکی ڈالر) کے قریب سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ مزید یہ کہ ’ہمیں 22 کروڑ لوگوں کو سبسڈی دینے کے بجائے ایسے گھرانوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جنہیں واقعی سبسڈی کی ضرورت ہے‘۔
زراعت پر غفلت کی بھاری قیمت
سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا نے کہا کہ 'اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ پچھلے 2 سالوں میں زراعت کے لیے درکار ابتدائی سرمایہ کاری میں ہونے والا اضافہ ہے۔ گیس اور بجلی کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جو 2019ء میں مذاکرات کے تحت آئی ایم ایف کے امدادی پیکیج کا حصہ ہے۔ ایندھن کی قیمتوں اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث کھاد اور بیج دونوں کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے'۔
حفیظ پاشا کے مطابق 'دیہی علاقوں میں قیمتیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں کیونکہ زیادہ منافع کے لیے سامان شہروں کو بھیج دیا جاتا ہے ساتھ ہی دالوں اور کھانا پکانے کے تیل جیسے درآمدی سامان کی قیمت میں اضافہ بھی اس کی وجہ ہے'۔
موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کم پیداوار نے اجناس کی قیمتوں پر بھی مضر اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کا اثر گندم کی قیمت پر نظر آیا جب ملک اپنا پیداواری ہدف پورا نہ کر پایا۔ نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (این اے آر سی) کی جانب سے دی تھرڈ پول کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 20ء-2019ء میں تقریباً 90 لاکھ ہیکٹر رقبے پر گندم کی کاشت کی گئی اور پیداوار کا اندازہ 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن لگایا گیا، لیکن اصل پیداوار ہدف سے 15 لاکھ ٹن کم رہی۔
اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے مطابق موسمیاتی تغیر اور زراعت کے روایتی طریقوں کی وجہ سے فصل کی پیداوار کم رہی اور پھر ٹیکنالوجی کا محدود استعمال معیشت میں زراعت کی زوال پذیر شراکت کی اہم وجہ ہے جو اب جی ڈی پی کا تقریباً 19 فیصد بنتا ہے۔ دولتچاہی نے کہا کہ حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب نے ملک کی غذائی تحفظ کی ناقص صورتحال میں اضافہ کیا ہے۔ سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے جنرل سیکرٹری اور ایک کسان زاہد بھرگری نے کہا کہ ’زراعت اب حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی‘۔
2019ء میں حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا امدادی پیکج حاصل کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے اور پھر کسانوں کی جانب سے خاص طور پر گندم کی قیمتوں میں زیادہ اخراجات کو لاگت میں شامل کرنے کے مطالبات کے خلاف مزاحمت کی گئی۔ زاہد بھرگری نے کہا کہ ’ہم نے گزشتہ سال گندم کی فصل پر فی ایکڑ 8 سے 10 ہزار روپے (50 سے 62 امریکی ڈالر) کا نقصان برداشت کیا، لیکن کسان کے مفادات کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ نومبر میں جب اپنے حقوق کے لیے لاہور میں احتجاج کرنے والے کسانوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تو اس کے نتیجے میں ایک کسان ہلاک ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں [زراعت کے شعبے کو] انتہائی مطلوب مدد مل جائے تو ہم 20 ارب ڈالر کی برآمدات کی ضمانت دے سکتے ہیں‘۔
مالی سال 17ء-2016ء میں پاکستان نے 6 ارب 70 کروڑ امریکی ڈالر کی مالیت کی خوراک اور زرعی مصنوعات درآمد کیں۔
زرعی تحقیق کو نظر انداز کرنا
زاہد بھرگری نے کہا کہ ملک میں زرعی تحقیق کا فقدان پایا جاتا ہے۔ انہوں نے ٹی جے 83 کا حوالہ دیا جو گزشتہ 37 سالوں سے سندھ میں کاشتکاروں کو دستیاب گندم کی واحد قسم ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ ’ہم ہمسایہ ممالک کی پیداوار سے کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں جہاں موسم کی تبدیلی کے مطابق بیجوں کی نئی اقسام متعارف کروائی گئی ہیں‘۔
این ای آر سی کے ڈائریکٹر جنرل شمیل سبطین شاہ نے زرعی تحقیق پر خاطر خواہ رقم خرچ نہ کرنا، فصلوں کی کٹائی سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور فصلوں کی اقسام میں تنوع نہ ہونے کو کم پیداوار کی وجہ بتایا ہے۔
ایس ڈی پی آئی سے تعلق رکھنے والے عابد قیوم سلیری نے موسمی تبدیلیوں کے مطابق کاشتکاری کے طریقوں میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا، لیکن انہوں نے کہا کہ لاگت اور فوائد میں عدم توازن کی وجہ سے فصلوں کی اقسام میں تنوع نہیں ہے جس کا بوجھ کسانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔